اسلام آباد: وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیرِ صدارت قومی سلامتی کمیٹی کے اہم اجلاس کا اختتام پزیر ہوگیا جس میں اعلیٰ سیاسی اور عسکری قیادت شریک ہوئی۔
اجلاس میں جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، ایئر چیف مارشل مجاہد انور خان اور چیف آف نیول اسٹاف ایڈمرل ظفر محمود عباسی موجود تھے۔ اجلاس میں پاکستان کی سیکیورٹی ایجنسیز انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی)، انٹیلی جنس بیورو (آئی بی)، ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) سمیت دیگر اداروں کے سربراہان بھی شریک تھے۔
ذرائع کے مطابق وزیرِ وفاع اور وزیر خارجہ خرم دستگیر سمیت دیگر اہم وزراء بھی اجلاس میں شریک ہوئے۔ اس حوالے سے ذرائع نے بتایا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں سابق وزیرِاعظم نواز شریف کی جانب سے ممبئی حملوں سے متعلق حالیہ بیان کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال پر غور کیا گیا۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کا اعلامیہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔ خیال رہے کہ پاک فوج کی ‘تجاویز’ پر ممبئی حملوں کے حوالے سے میڈیا میں ‘گمراہ کن’ بیانات پر مشاورت کے لیے 14 مئی کو قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا گیا تھا۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل آصف غفور نے ٹوئٹر میں جاری بیان میں کہا تھا کہ ‘میڈیا میں ممبئی حملوں کے حوالے سے چلنے والے گمراہ کن بیان پر مشاورت کے لیے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی صدارت میں پیر کی صبح قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلانے کی تجویز دی گئی تھی’۔
میجر جنرل آصف غفور کی جانب سے کسی میڈیا کے بیان کا ذکر نہیں کیا گیا ہے تاہم یہ تجویز سابق وزیراعظم نواز شریف کے نجی چینل کے ایک انٹرویو میں ممبئی حملوں پر دیئے گئے بیان پر میڈیا میں ایک نیا تنازع کھڑا ہوا ہے۔
یاد رہے کہ نواز شریف نے ممبئی حملوں پر راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں دائر مقدمے کے حوالے سے کہا تھا کہ اس مقدمے کی کارروائی ابھی تک مکمل کیوں نہیں ہوسکی؟ ان کا مزید کہنا تھا کہ عسکری تنظیمیں اب تک متحرک ہیں جنھیں غیر ریاستی عناصر کہا جاتا ہے، مجھے سمجھائیں کہ کیا ہمیں ان کو اس بات کی اجازت دینی چاہیے کہ سرحد پار جا کر ممبئی میں 150 لوگوں کو قتل کردیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ عمل ناقابل قبول ہے یہی وجہ ہے جس کی وجہ سے ہمیں مشکلات کا سامنا ہے، یہ بات روسی صدر ولادی میر پیوٹن اور چینی صدر ژی جنگ نے بھی کہی۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان اور پاکستان پیپلز پارٹی سمیت دیگر حزب اختلاف کی جماعتوں نے اس بیان کو غداری سے منسوب کرتے ہوئے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا تھا۔ دوسری جانب سے مسلم لیگ (ن) کے ترجمان نے وضاحتی بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ پارٹی قائد کے بیان کو بھارتی میڈیا نے توڑ مروڑ کر پیش کیا اور بدقسمتی سے پاکستان الیکٹرونک اور سوشل میڈیا کے ایک حلقے نے بھارتی پروپیگنڈے کی توثیق کردی۔