اسلام آباد: سپریم کورٹ نے جہانگیر ترین نااہلی کیس کی سماعت کے دوران آبزرویشن دی ہے کہ عمران خان اور جہانگیر ترین کی اہلیت کا معاملہ اور پاناما کیس کی نوعیت ایک جیسی ہے، اس لیے انھیں ایک ساتھ سننا چاہیے تھا۔
معلوم نہیں عمران خان اور جہانگیر ترین کیس کو مرکزی کیس سے الگ کیوں کیا گیا، درخواست گزار کے وکیل اکرم شیخ کا اس حوالے سے موقف درست ہے، پاناما کیس اور زیر غور درخواستوں میں قانونی سوالات مشترک ہیں، یہ معاملہ غلط بیانی، اثاثے چھپانے اور بددیانتی کا ہے، ہم اس مقدمے کوتحمل سے سن رہے ہیں تا کہ کوئی غلط قانون نہ بن جائے۔ پارلیمنٹ مقتدر ادارہ ہے، پارلیمنٹیرینز کے سروں پر تلوار نہیں لٹکنا چاہیے کیونکہ وہ ہمارے منتخب نمائندے ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ جو لوگ منتخب ہوئے وہ کرپشن اور دھوکا دہی کے مرتکب تو نہیں ہوئے، کوئی چیز چھپائی تو نہیں، جو ظاہر کیا اس میں دھوکا تو نہیں۔ سب کو ایک ترازو پر پرکھنا ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں فل بینچ نے جہانگیر ترین کے وکیل سے زرعی ٹیکس کی تفصیلات طلب کرلیں۔ گزشتہ روز دلائل کا آغاز کرتے ہوئے جہانگیر ترین کے وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ درخواست گزار نے بدنیتی کے ساتھ سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔
انھوں نے مفاد عامہ کیلیے نہیں بلکہ سیاسی مقاصد پورا کرنے اور سابق وزیر اعظم کے خلاف پٹیشن کا حساب برابر کرنے کیلیے درخواست دائر کی، عدالت نیک نیتی کی شرط کو جانچے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیا پاناما کیس کا اطلاق آپ کے موکل پر نہیں ہوگا؟ کیا وہ منتخب نمائندہ نہیں؟ کیا ایک منتخب نمائندے کیلیے الگ اور دوسرے کیلیے الگ معیار اور پیمانہ ہوگا؟ آف شور کمپنی چھپانے کا مقصد دولت چھپانا ہوتا ہے، قانون کہتا ہے کہ اثاثے اور دولت کو ظاہر کیا جائے، اس لیے معاملہ عوامی مفاد کا ہے۔ عدالت کا وقت ختم ہونے پر مزید سماعت آج تک ملتوی کر دی گئی۔