counter easy hit

ضرورت ہے پراعتماد جوابی دفاع

the-need-of-confident-counter-defense

the-need-of-confident-counter-defense

کتابیں پڑھنے کے لئے وقت، توجہ اور لگن کی ضرورت ہوتی ہے۔ روزمرہّ کے امور نمٹانے نے مگر مجھے ’’مصروف‘‘ بنادیا ہے۔ توجہ کا ارتکاز عمر بڑھنے کے ساتھ کمزور ہونا شروع ہوگیا ہے اور لگن کو توانا رکھنے کے لئے درکار ہیں’’اہداف‘‘۔ ہدف اپنا اب مگر ’’ڈنگ ٹپانا‘‘ ہوچکا ہے۔ غالب کو ’’صبح کرنا شام کا‘‘ایک عذاب کی مانند محسوس ہوتا تھا۔مجھے ایسے لوگ صبح اُٹھنے کے بعد اپنے ذمے کے کام بے دلی سے بھگتاتے ہوئے شام کی طرف دوڑنے میں مصروف رہتے ہیں۔
بہت دنوں سے یہ فکر ستائے چلی جارہی تھی کہ سی پیک کے بارے میں ہماری حکمران اشرافیہ، فخر و انبساط کے جو مظاہرے کررہی ہے اسے پاک-چین تعلقات کی تاریخ کے تناظر میں رکھ کر سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ اس تاریخ کو ٹھوس حوالوں سے تحقیقی لگن کے ذریعے بیان کرنے والی کتاب کی تلاش شروع ہوئی تو ’اینڈریو سمال ‘کی حال ہی میں شائع ہونے والی ’چائنہ پاکستان ایکسس‘کو بازار میں میسر کتابوں میں سے بہت کارآمد پایا۔ دو ہفتے قبل اسے پڑھنا شروع کیا تھا مگر ابھی تک ختم نہیں کر پایا۔ختم کرچکوں تو اس میں بیان کردہ حوالوں کے تناظر میں اپنی کوئی رائے بناکر آپ کے سامنے رکھی جاسکتی ہے۔
پاک-چین تعلقات کے بارے میں کتابیں تلاش کرتے ہوئے دو امریکی دانشوروں کی لکھی’ناٹ وار ناٹ پیس‘بھی ہاتھ لگ گئی۔ اس کتاب کے مصنفین’جارج پرکووچ اور ٹوبی ڈالٹن ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ کتاب انہوں نے ایسا ماحول ڈھونڈنے کی خاطر لکھی ہے جو پاکستان کو ’’سرحد پاردہشت گردی‘‘ روکنے پر قائل کرسکے۔ اس کتاب کے پیش لفظ کور کے پیچھے صفحے پر شائع تبصروں اور مختلف عنوانات کا جائزہ لیتے ہوئے مجھے یہ احساس بھی ہوا کہ مصنفین کی نظر میں بھارت بہت بے چینی سے کوئی ایسی حکمت عملی تلاش کررہا ہے جو اسے ممبئی میں 2008ء کے اواخر میں ہوئے واقعہ کے بعد سے ایک ’’بے بس ریاست‘‘ کے طورپرپیش نہ کرے۔مصنفین کی جانب سے اٹھایا یہ سوال بہت اہم محسوس ہوا اور فیصلہ کرلیا گیا کہ پاک-چین تعلقات پر مبنی کتاب کو ختم کرنے کے بعد اس کتاب کو پڑھا جائے گا۔
اس کتاب تک پہنچنے کی نوبت ہی نہیں آئی تھی کہ اوڑی والا واقعہ ہوگیا۔ میں آج بھی یہ طے نہیں کر پایا ہوں کہ اوڑی پر حملہ بھارت کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کا رچایا ایک اور’’فالس فلیگ آپریشن‘‘تھا یا مجاہدین کے کسی گروہ کی جانب سے یہ ’’فدائی‘‘ غصے کا اظہار تھا۔ایک بات مگر طے تھی اور وہ یہ کہ اوڑی پر ہوئے حملے کے بعد سے مقبوضہ کشمیر میں برہان وانی کی وحشیانہ ہلاکت کی وجہ سے بپھری احتجاجی لہر، مقامی اور بین الاقوامی میڈیا کی نگاہوں سے اوجھل ہوگئی۔ ہماری توجہ کا رُخ اب اوڑی پر ہوئے حملے کی وجہ سے بڑھتی پاک-بھارت کشیدگی کی جانب منتقل ہوگیا ہے۔توجہ کی اس منتقلی نے مجھے پریشان کردیا۔ اپنی پریشانی کا اظہار میں نے اس کالم میں کر بھی دیا اور اب بھارتی فوج کی جانب سے یہ دعویٰ آگیا ہے کہ گزشتہ بدھ اور جمعرات کی درمیانی رات کو اس نے پاکستان اور بھارت کے مابین کشمیرپر موجود لائن آف کنٹرول کو سات مختلف مقامات پر عبور کیا اور بقول اس کے دہشت گردوں کو’لانچ‘کرنے والے ٹھکانوں کو مسمار کردیا۔ اپنے اس ’’حملے‘‘ کو بھارتی فوج نے سرجیکل سٹرائیک ‘کا نام دیا ہے۔’
میں فوجی معاملات سمجھنے کے سلسلے میں کافی جاہل واقع ہوا ہوں۔ پاک -بھارت تعلقات کو 1980ء کی دہائی سے ایک رپورٹر کے طورپر 20سے زائد برسوں تک مستقل رپورٹ کرتے ہوئے مگر فوجی معاملات کو بھی دیکھنا پڑتا ہے۔فوری ردعمل میرا ایمان دارانہ طورپر یہ تھا کہ لائن آف کنٹرول پر ایسی سٹرائیکس ممکن ہی نہیں۔جن کا دعویٰ بھارت کررہا تھا۔چند مقامات پر اس کی روایتی فوج نے گولہ باری کے ذریعے چھیڑچھاڑ یقینا شروع کردی ہوگی۔ ایسی چھیڑ چھاڑ کا فوری جواب دیا جاتا ہے۔ جواب مل جائے تو ’سرجیکل سٹرائیکس‘والی بات نہیں بنتی۔
بھارت مگر یہ اصطلاح استعمال کئے چلے جارہا ہے تاکہ “56انچ چھاتی والا”مودی اپنے لوگوں کوقائل کرسکے کہ وہ من موہن سنگھ جیسا ’’کمزور‘‘ وزیر اعظم نہیں ہے۔ پاکستان کے سیاسی،سفارتی اور دفاعی حکام میرے فطری ردعمل کی ٹھوس حوالوں سے تصدیق کررہے ہیں۔ بھارت البتہ اب بھی اپنے دعویٰ پر قائم ہے۔
اس ضمن میں اپنائی بھارتی ہٹ دھرمی نے مجھے اس شک میں مبتلا کردیا کہ سرجیکل سٹرائیکس کا دعویٰ، مودی کو محض”56انچ چھاتی والا”ثابت کرنے ہی کو نہیں کیا جارہا۔اس کا مقصد کچھ اور ہے۔ اس ’’مقصد‘‘ کو ڈھونڈتے ہوئے مجھے سب سے زیادہ حیران بھارت کے جونیئر وزیر دفاع کے ایک دعویٰ نے کیا۔ کرنل راٹھور اس وزیر کا نام ہے۔ وہ خاص طورپر مختلف ٹی وی اینکروں کے روبرو آکر اس دعویٰ پر زور دیتا رہا کہ بھارت نے گزشتہ بدھ اور جمعرات کی درمیانی رات کسی ’’غیر ملک میں دراندازی‘‘نہیں کی ہے۔ بھارتی ’سرجیکل سٹرائیکس درحقیقت’’دہشت گردی کے خلاف آپریشن‘‘ تھیں جو بھارت کے ’’اس حصے‘‘ میں ہوئیں جو ’’دشمن کے قبضے میں ہے‘‘۔
سفارتی زبان کی تھوڑی بہت شدھ بدھ رکھنے کی وجہ سے میں اس بیان کے بعد یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا ہوں کہ بھارت نے شملہ معاہدے کے ذریعے 1972ء میں کشمیر پر موجود لائن آف کنٹرول کے وجود اور اس کی حرمت کو برقرار رکھنے کے فیصلے سے ریاستی سطح پر انکار کردیا ہے۔
میں نے اپنا یہ شک چند صحافی دوستوں اور ریٹائرڈ سفارت کاروں کے سامنے رکھا تو انہوں نے بڑی سخت زبان میں اسے رد کردیا۔ انہیں اب بھی یہ گمان تھا کہ ایک ایٹمی قوت ہوتے ہوئے بھارت،لائن آف کنٹرول کو غیر ذمہ دارانہ انداز میں تسلیم کرنے سے انکار کا مرتکب ہوہی نہیں سکتا۔
تین دن گزرنے کے بعد البتہ اب یہ بات عیاں ہورہی ہے کہ بھارت نے ایل او سی کے بارے میں وہی رویہ اختیار کرلیا ہے جس کا مجھے شبہ تھا۔ ہفتے کی صبح بھارت کا ایک انتہائی باخبر مانے صحافی شیکھرگپتا نے بلکہ ایک تفصیلی مضمون لکھ ڈالا ہے۔ اس مضمون کے ذریعے گپتا نے دعویٰ کیا ہے کہ گزشتہ بدھ اور جمعرات کی درمیانی رات ہوئی ’’سرجیکل سٹرائیکس‘‘خواہ کتنی ہی معمولی یا علامتی کیوں نہ رہی ہوں، ان کے بعد بھارتی ریاست کی جانب سے اپنائی زبان اس حقیقت کا اظہار ہے کہ بھارت کی پہلی ہندو انتہا پسند حکومت نے معاہدہ تاشقند کے ذریعے قائم ہوئے بندوبست کو برقرار رکھنے سے انکار کردیا ہے۔ پاک-بھارت تعلقات کو اب ’’سرجیکل سٹرائیکس سے پہلے اور سرجیکل سٹرائیکس کے بعد‘‘ والے تناظر میں دیکھنا ہوگا۔
میں خود کو گپتا کے خیال سے اتفاق کرنے پرمجبور پارہا ہوں۔گزشتہ بدھ اور جمعرات کی درمیانی رات کشمیر پر قائم لائن آف کنٹرول کی بھارتی فوج کی جانب سے خلاف ورزی ایک سوچا سمجھا قدم تھا۔ اب ایل او سیپر ایسے مزید واقعات بھی ہوں گے۔پاکستان کو ایسے واقعات کے ذریعے کھلی اور بھرپور جنگ کی طرف دھکیلنے کی کوشش ہوگی۔ خوب سوچ سمجھ کر اپنائی اس حکمت عملی کا جواب مگر فوری اشتعال نہیں،پُراعتماد جوابی دفاع ہے۔ بڑھک بازی کی قطعاََ ضرورت نہیں۔ بہت ٹھنڈے اور منطقی انداز میں ہمارے سفارتی اور عسکری ماہرین کو اب یہ سوچنا ہوگا کہ معاہدہ تاشقند کی بدولت ہوئے بندوبست کو ختم کرنے کے لئے بھارت کونسے مزید اقدامات اٹھانے کے منصوبے بنارہا ہے۔

imgres-285x160بشکریہ نوائے وقت

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website