واشنگٹن(ویب ڈیسک) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایرانی ہم منصب حسن روحانی سے غیر مشروط ملاقات پر آمادگی کا اظہار کر دیا ہے۔ذرائع کے مطابق امریکی قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن کے جاتے ہی ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسی میں بڑی تبدیلی آئی ہے ۔امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ صدرٹرمپ ایرانی ہم منصب حسن روحانی سے غیر مشروط ملاقات کرسکتے ہیں۔امریکہ کی جانب سے پہلے ایران کے پاسداران انقلاب سمیت مختلف تنظیموں پر دہشت گردی کے الزامات کے تحت پابندیاں لگائی گئیں اورساتھ ہی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ایرانی ہم منصب سے ملاقات کا بھی عندیہ دے دیا گیا۔دوسری جانب ایران کے صدر حسن روحانی کے ترجمان نے کہا کہ جان بولٹن کی برطرفی امریکہ کی ایران پالیسی کی ناکامی کا ثبوت ہے۔ایرانی صدر پہلے ہی اعلان کرچکے ہیں کہ پابندیوں کے خاتمے تک ایران امریکہ سے مذاکرات نہیں کرے گا۔اس سے پہلے ایک خبر کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن کو عہدے سے برطرف کر دیا ہے۔منگل کو ٹرمپ نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ’انتظامیہ کے دیگر افراد کی طرح مجھے بھی جان کی بہت سی تجاویز سے سخت اختلاف تھا لہذا میں نے ان سے استعفیٰ مانگا تھا جو انہوں نے آج صبح مجھے دے دیا ہے۔ میں نے جان کو بتایا تھا کہ وائٹ ہاؤس میں ان کی مزید خدمات درکار نہیں ہیں۔‘ٹرمپ نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ جان بولٹن کے متبادل کا اعلان اگلے ہفتے کریں گے۔ دوسری طرف جان بولٹن نے کہا ہے کہ انہیں برطرف نہیں کیا گیا بلکہ انہوں نے خود استعفیٰ دیا ہے۔ انہوں نے اپنی ٹویٹ میں لکھا ہے کہ ’میں نے کل رات صدر ٹرمپ کو استعفے کی پیش کش کی لیکن انہوں نے کہا کہ اس پر کل بات کریں گے۔‘ ٹرمپ نے بولٹن کی برطرفی کا اعلان اس وقت کیا جب تھوڑی ہی دیر پہلے وائٹ ہاؤس پریس آفس کی جانب سے یہ بتایا گیا تھا کہ جان بولٹن کچھ ہی دیر پر دہشت گردی کے مسائل پر بات کرنے کے لیے سیکرٹری خارجہ مائیک پومپیو کے ہمراہ پریس کانفرنس کریں گے۔ خیال رہے کہ جان بولٹن افغان طالبان کے ساتھ امن معاہدے کے سخت مخالف تھے۔ رواں ماہ کے آغاز میں ٹرمپ مخالف پالیسیوں کی وجہ سے امریکہ طالبان بات چیت سے انہیں الگ کر دیا تھا۔ اب ان کا استعفی ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب صرف دو روز قبل ہی ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان کے ساتھ افغان امن مذاکرات کی معطلی کا اعلان کیا ہے اور مذاکرات کو مردہ قرار دیا ہے جبکہ دوسری طرف طالبان نے بھی کہا ہے کہ وہ لڑنے کے لیے تیار ہیں اور مذاکرات معطل کرنے کا زیادہ نقصان خود امریکہ ہی کو ہوگا۔