انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں پانچ مہینے سے جاری احتجاج، مظاہروں اور ہڑتالوں کے بعد اب روزمرہ کی زندگی رفتہ رفتہ معمول پر آ رہی ہے۔ علیحدگی پسندوں نے شورش زدہ وادی میں طویل ترین ہڑتال کے بعد اب ہفتے میں صرف دو دن کے لیے ہڑتال کی کال دی ہے۔
کئی مہینوں کی ہڑتال اور شورش کے نتیجے میں یہاں عام زندگی بری طرح مفلوج ہوئی۔ ہڑتالوں میں کمی کرنے سے عام لوگوں کو اب کافی راحت محسوس ہو رہی ہے۔ وہ ایک بار پھر اپنی منتشر زندگی کو سمیٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
لیکن گذشتہ جولائی میں حزب کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد ہونے والے بھارت مخالف احتجاجوں اور مظاہروں میں جو لوگ مارے گئے، ہزاروں لوگ جو زخمی ہوئے اور جن کے جسم اور آنکھیں پیلیٹ گنز کی گولیوں سے چھلنی ہوئیں ان کی زندگی اب ایک مسلسل جد وجہد ہے۔ گزرے ہوئے شورش زدہ مہینوں میں ہزاروں نوجوان گرفتار کیے گئے ہیں۔ ان کے والدین اور رشتے داروں کے لیے یہ ایک انتہائی مشکل گھڑی ہے۔
انڈیا کے زیر انتطام کشمیر میں مظاہروں اور احتجاجوں پر پابندی عائد ہے۔ علیحدگی پسند رہنما اپنے گھروں میں نظر بند ہیں۔ حالیہ مہینوں کی شورش کے بعد ایک بار پھر وادی کے طول و عرض میں نوے اور دو ہزار کے عشروں کی طرح جگہ جگہ سکیورٹی فورسز نظر آتی ہیں۔
کمشیر میں موسم سرما شروع ہو چکا ہے۔ حکومت کے دفاتر جموں منتقل ہو چکے ہیں۔ شدید سردی کے اس موسم میں وادی میں عموماً یہ وقت پرسکون ہوتا ہے۔ لیکن اس بار گزرے ہوئے دنوں کے پرتشدد واقعات کی یادیں لوگوں کے ذہنوں میں ابھی تازہ ہیں۔ فضا میں افسردگی کا احساس بسا ہوا ہے۔
اضطراب اور بے چینی کے اس ماحول میں مقامی شدت پسندی کی ایک نئی لہر شروع ہوئی ہے۔
پچھلے دنوں بیج بہاڑہ قصبے میں ایک مینہ شدت پسند باسط رسول ڈار سکیورٹی فورسز سے تصادم میں مارا گیا۔ باسط انجینیرنگ کا طالب علم تھا اور اس نے برہان وانی کی ہلاکت کے کچھ مہینے بعد ہی شدت پسندی کا راستہ اختیار کیا تھا۔ باسط کی طرح انجینیرنگ اور دوسرے شعبوں کے کئی اور طالب علم عسکریت کے راستے پر چلے اور مارے گئے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس برس 150 عسکریت پسند سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے گئے۔ وادی میں شدت پسندی کی یہ ایک نئی لہر ہے۔
اس نئی شدت پسندی میں ایک بڑی تعداد ایسے نوجوانوں کی ہے جو تعلیم یافتہ ہیں اور جو یہیں کے مقامی رہائشی ہیں۔
1980 اور 1990 کےعشرے کے بر عکس شدت پسندی کی یہ نوعیت خالصتاً مقامی ہے۔ نوجوانوں کی نئی نسل اس وقت شدید بے چینی اور اضطراب سے گزر رہی ہے۔ وادی کے مختلف مقامات سے بچوں کے اچانک غائب ہوجانے کی خبریں اکثر آتی رہتی ہیں۔ والدین بے بس ہیں۔
علیحدگی پسند رہنماؤں کو بھی اس صورتحال پر کافی تشویش ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شدت پسندی کی طرف راغب ہونے والے بیشتر بچے وہ ہیں جو 2008 اور 2010 کی تحریک کے دوران اور اس کے بعد مبینہ طور پر سکیورٹی فورسز کی زیادتیوں کا نشانہ بنے تھے۔
ان کا الزام ہے کہ سکیورٹی فورسز نوجوانوں اور ان کے والدین کو مسلسل اتنا ہراساں کر رہی ہیں کہ نوجوانوں کے سامنے شدت پسندی کا راستہ اختیار کرنے کےعلاوہ کوئی چارہ نہیں بچتا۔ وہ اس صورتحال کو خطرناک قرار دیتے ہیں۔ان کاخیال ہے کہ اس کا نتیجہ نئی نسل کے لیے اچھا نہیں ہو گا۔
سکیورٹی اہلکار اس کے لیے علیحدگی پسندوں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ علیحدگی پسند اپنے سیاسسی مقاصد کے حصول کے لیے نوجوانوں کو شدت پسندی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ حکومت اور سکیورٹی فورسز نے ’زیرو ٹولرنس‘ کا موقف اختیار کر رکھا ہے۔
حکومت علیحدگی پسندوں سے کوئی بات نہ کرنے کے اپنے موقف پر پوری سختی سے قائم ہے۔ سیاسی مذاکرات کے سبھی راستے بند ہیں۔ حالیہ ہلاکتوں اور بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کے سلسلے کے بعد ریاستی حکومت بھی عوام سے پوری طرح کٹی ہوئی ہے۔ کشیمر ایک بار پھر اضطراب اور انجانے اندیشوں سے گزر رہا ہے۔