نقیب اللہ محسود قتل کیس کی نئی مشترکہ تحقیقاتی رپورٹ میں بھی گرفتار مرکزی ملزم سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار پر رواں سال 13 جنوری کو جعلی پولیس مقابلے میں 4 افراد کے قتل کا الزام برقرار رکھا ہے۔
رپورٹ کے مطابق راؤ انوار نے جعلی مقابلے میں نقیب محسود اور دیگر کو قتل کیا تھا۔
ذرائع کے مطابق راؤ انوار سمیت 24 اہلکاروں پر دہشت گردی اور غیرقانونی اسلحے کے مقدمات میں تمام الزامات کو بھی برقرار رکھا گیا ہے۔
مقدمے کے تمام گواہوں نے جے آئی ٹی کے سامنے نئے بیانات میں بھی پولیس پر قتل اور دہشت گردی کے الزامات برقرار رکھے ہیں۔
ذرائع کے مطابق راؤ انوار کی پولیس ٹیم کے 3 گرفتار پولیس اہلکاروں نے بھی اپنے بیانات میں راؤ انوار پر الزامات کا اعادہ کیا ہے۔
نئی جے آئی ٹی نے وقوعہ کا تفصیلی دورہ کرنے کے بعد اپنی رپورٹ میں پولیس پر عائد تمام الزامات کو مثبت قرار دیا ہے۔
راؤ انوار اور ملزمان کے موبائل فونز کے کال ڈیٹا ریکارڈ کی چھان بین نے مزید شواہد فراہم کردیے۔
پولیس ذرائع کے مطابق سینٹرل جیل میں قید بعض ملزمان کے بیانات کی بھی دوبارہ تصدیق کی گئی ہے۔
جےآئی ٹی کی رپورٹ میں ٹیم کے سامنے سابق ایس ایس پی راؤ انوار کی گفتگو، تحریری بیان اور سوالنامے کے جوابات کو بھی رپورٹ کا حصہ بنایا گیا ہے۔
جے آئی ٹی کے ذرائع کے مطابق کیس کے حوالے سے مختلف افواہیں پھیلائی جارہی ہیں،راؤ انوار کے خلاف نقیب قتل کیس کا مقدمہ انتہائی مضبوط ہے، اس بارے میں کسی کو کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہئے۔
نقیب قتل کیس میں سابق ایس ایس پی راؤ انوار سمیت 12 ملزمان گرفتار جبکہ 13 فرار ہیں۔
نقیب قتل کیس کی شوٹر ٹیم کے رکن پولیس کانسٹیبل شکیل کو نئی جے آئی ٹی کی تحقیقات پر گرفتار کیا گیا۔
جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے نوجوان نقیب اللہ کو 13 جنوری کو جعلی پولیس مقابلے میں قتل کیا گیا تھا۔