counter easy hit

ٹائیگروں کے دل خوش کر دینے والی خبر

The news of tiger's heartbeat

لاہور (ویب ڈیسک) موجودہ سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کا مستقبل روشن نظر نہیں آرہا ۔قانونی خطرات کو سمجھنا ضروری ہے ۔ اگر نٹ کو زیادہ ٹائٹ کرنے کی کوشش کی جائے چیزیں کنٹرول سے باہر ہو جاتی ہیں۔ پاکستان کا سیاسی نظام اس زون میں داخل ہو رہا ہے جہاں صدر ایوب خان‘ ذوالفقارعلی بھٹو‘ نامور کالم نگار کنور دلشاد اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ ضیا الحق اورجنرل پرویز مشرف جیسے لوگ بھی بے بسی کی مثال بن گئے تھے۔ موجودہ حکومت اپنی سادہ اکثریت کی وجہ سے اتحادی جماعتوں کے ہاتھوں یرغمال بن چکی ہے ۔ اس تناظر میں اطلاعات یہ ہیں وزیراعظم عمران خان نے اپنے بااعتماد و سینئر رہنماؤں کو اہم ٹاسک سونپ دئیے ہیں کہ آئندہ قانون سازی سے اتحادی جماعتوں کے معاملات پر از سر نو جائزہ لیا جائے ۔ سبھی جانتے ہیں کہ اسی سادہ اکثریت کی وجہ سے رواں مالی سال کا بجٹ قومی اسمبلی سے پاس کرانے کے لئے حکومت کو کن دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ قومی اسمبلی میں اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے وزیراعظم عمران خان کو ذاتی طور پر اتحادی جماعتوں کے اراکینِ اسمبلی سے ملاقات کر کے ان کے مطالبات تسلیم کرنا پڑے اور چوہدری شجاعت حسین ‘ چوہدری پرویز الٰہی اور سردار اختر مینگل اور متحدہ قومی موومنٹ کے ارکان سے گلے شکوے بھی سننا پڑے۔ وزیراعظم عمران خان؛ چونکہ فاسٹ با ئولررہے ہیں‘ مگر سیاست میںیہی اتحادی جماعتیں ان کی فاسٹ با ئولنگ کے آڑے آ رہی ہیں۔اطلاعات یہ ہیں کہ وزیراعظم عمران خان بنی گالہ میں اپنے با اعتماد اراکینِ قومی اسمبلی سے ملاقاتیں کرکے انہیں اس تشویش سے آگاہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے آئندہ اتحادی جماعتوں کا کسی بھی قسم کا مطالبہ تسلیم کرنے سے صاف انکار کردیا ہے اور یہ عزم ظاہر کیا ہے کہ وہ کسی سیاسی فریق کی بلیک میلنگ برداشت نہیں کریں گے۔ اسی تناظر میں حکومت نے پاکستان مسلم لیگ( ن) میں نقب زنی کرنے کے لیے متبادل پلان پر بھی کام شروع کر دیا ہے۔ پنجاب اور قومی اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ارکان سے رابطے شروع کر دیئے گئے ہیں اور شنید ہے کہ اب تک 40 ار کان ِصوبائی و قومی اسمبلی کا ان سے رابطہ ہو چکا ہے۔ اس طرح صوبائی اسمبلی پنجاب اور قومی اسمبلی میں مسلم لیگ کا علیحدہ گروپ بنا کر‘ آئین کے آرٹیکل 63 ون کی زد میں آئے بغیر وزیر اعظم عمران خان کو پرانے اتحادیوں کے چنگل سے نکالنے کی راہ نکالی جا رہی ہے۔حکومت کے تھنک ٹینک اپنے مفادات کے پیش نظر وزیر اعظم کو صحیح تصویر پیش کرنے سے قاصر ہیں ۔ یہ تاثردیا جا رہا ہے کہ حکومت کی مقبولیت کم ہونے کی وجہ معاشی حالات ہیں‘ جبکہ معاشی حالات میں مزید ابہام پیدا کیا جا رہا ہے ۔ وفاقی وزیر حماد اظہر کا قلمدان تبدیل کر کے انہیں وزیر مملکت برائے ریونیو کی بجائے اقتصادی امور کا وفاقی وزیر بنا دیا گیا ہے‘ جو اِن کی مہارت سے مطابقت نہیں رکھتا ۔ان کے والد محترم میاں اظہر ہر دلعزیز سیاسی شخصیت ہیں۔ وہ گورنر پنجاب بھی رہے ہیں اور پاکستان مسلم لیگ (ق )کے بانی صدر تھے اور بعد میں ان کو محلاتی سازشوں کے ذریعے اکتوبر 2002ء کے الیکشن میں میجر جنرل حسین مہدی مرحوم نے انجینئر ڈ طریقے سے ہرا دیا تھا ۔ بعد ازاں ان کو پاکستان مسلم لیگ (ق) کی صدارت سے محروم کردیا گیا اور جواز پیدا کیا گیا کہ مسلم لیگ (ق) کے صدر کے ہارنے سے ان کا صدارتی عہدے پر رہنے کا استحقاق ختم ہو چکاہے ۔اس کے بعد انہوں نے سیاست سے ریٹائرمنٹ اختیار کر لی اور اب ان کے ہونہار صاحبزادے حماد اظہرکی قابلیت سے وزیراعظم خوب واقف ہیں۔عمران خان صاحب جب سے حکومت میں آئے ہیں‘ ایک خاص طرح کے گھیرے میں ہیں۔اپوزیشن نے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی صاحب کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کراتے ہوئے کہا ہے کہ چیئرمین سینیٹ اعتماد کھو بیٹھے ہیں۔ قواعد کے مطابق اپوزیشن کی تحریک پر نوٹس جاری ہونے کے سات دن بعد پہلے ورکنگ دن کو قرارداد پیش کرنے کی تحریک کو سینیٹ اجلاس میں واحد ایجنڈا آیٹم کے طور پر پیش کیا جائے گا جبکہ اجلاس کی صدارت چیئرمین سینیٹ نہیں کریں گے ۔ چیئرمین سینیٹ کو عہدے سے ہٹانے کے لیے قرارداد پر رائے شماری خفیہ ہوگی۔ موجودہ سینیٹ میں اپوزیشن جماعتوں کے حامی 65 اور حکومتی جماعت کے حامی 36 سینیٹر ہیں ۔ میری رائے میں عددی قوت کے اعداد و شمار کا معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے ‘ماضی میں بھی اس قسم کی تحریک چلی تھی‘ تاہم مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر ز نے صادق سنجرانی صاحب کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ دینے سے انکار کردیا تھا ‘اب بھی دونوں جماعتوں میں ایسے افراد ہیں جو چیئرمین سینیٹ کی برطرفی پر متفق نہیں ہیں۔ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کسی چیئرمین سینیٹ کو اس لیے ہٹایا جارہا ہے کہ وہ اپوزیشن کی توقعات پر پورا نہیں اترے۔ کسی بھی چیئرمین سینیٹ کے خلاف پہلی مرتبہ تحریک عدم اعتماد لائی گئی ہے۔ میری رائے میں یہ اقدام جمہوری نظام کی بساط لپیٹنے اور ملک کے سب سے بڑے ادارے جسے پارلیمان کا ایوان بالا کہا جاتا ہے‘ کو عضو معطل بنانے کی شعوری کوشش ہے‘ تاکہ مرضی کا چیئرمین سینیٹ بنا کر حکومت کو قانون سازی سے روکا جائے۔ چیئرمین کی قسمت کا فیصلہ چودہ دن میں ہو جائے گا ۔ اپوزیشن میں اعتماد کا فقدان ہے۔ مسلم لیگ( ن) برطانیہ کے فارن فنڈنگ میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے گرداب میں پھنس چکی ہے ‘ ان حالات میں مسلم لیگ (ن )اپنے ارکان سینیٹ پر گرفت نہ ہونے کے برابر ہے ۔آصف علی زرداری کی نگاہیں افق پر ہیں اور وہاں سے کسی شبنم کے قطرے کے منتظر ہیں‘ لہٰذا اس میں شک نہیں کی ان کی توجہ کا مرکز اپنے مفادات کا تحفظ ہے ۔ ان حالات میں میر حاصل خان بزنجو علامتی طور پر ہی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں ۔تجربات ‘ الزامات اورحقائق اپنی جگہ ہیں اور سیاست اور سیاسی مفادات اپنی جگہ۔ہمارا پورا معاشرہ ہی امتحان کے مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ منظم انداز میں ہمیں ایک انتشار کی کیفیت سے دوچار کیا جارہا ہے ۔ اداروں اور سیاسی مافیا کی کشمکش میں کس کی ہار اور کس کی جیت ہوگی؟ یہ کہنا مشکل ہے۔ ان حالات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) ٹولا میاں عطا محمد مانیکا کی طرز پر جس فارمولے کے تحت قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی پنجاب میں” حقیقی مسلم لیگ‘‘ کے نام پر علیحدہ گروپ تشکیل دینے کی سوچ رہا ہے‘ان پر آئین کے آرٹیکل 63 ون کے تحت کارروائی کرنے کا عمل کئی سالوں پر محیط ہو جائے گا۔ اس کا طریقہ کار نہایت پیچیدہ اور مشکل ترین ہے اور انہی آئینی مشکلات کی آڑ میں یہ گروپ وزیراعظم عمران خان کی پالیسیوں کی حمایت جاری رکھے گا اور اسی گروپ کی اندرونی طور پر خواہش ہوگی کہ سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی کو بھی تبدیل کر دیا جائے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے تقریباً 40کے لگ بھگ ارکان صوبائی اسمبلی پہلے ہی چوہدری پرویز الٰہی کو سپیکر کی نشست سے محروم کرنے کے بارے میں منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔پاکستان مسلم لیگ (ن) کے بعض ارکانِ قومی اسمبلی نے مجھ سے آئین کے آرٹیکل 63 ون کی تشریح ڈھکے چھپے انداز میں پوچھنے کی کوشش کی تو میں نے ان کو بتایا کہ معقول انداز میں ارکان اسمبلی اپنا علیحدہ علیحدہ گروپ بناتے ہیں تو ان پر آئین کا آرٹیکل 63 ون لاگو نہیں ہوتا۔ پارٹی فلورکراسنگ کے حوالے سے ان کو نوٹس جاری کرے گی‘ عموماً ناراض ارکان اپنے خلاف چارج شیٹ کا جواب دینے سے گریز کریں گے اور عائشہ گلالئی کے ریفرنس کی روشنی میں ان ناراض ارکان کی نااہلی ناممکن نظر آتی ہے۔ بہرکیف وزیراعظم عمران خان کو پارٹی کے سینئر رہنماؤں جن میں جہانگیر ترین‘ شاہ محمود قریشی اور دیگر رہنماشامل ہیں ‘سے مشاورت کرنے کے بعد ہی کوئی لائحہ عمل تیارکرنا چاہیے ۔ وزیر اعظم ان ناراض ارکان سے ملنے سے گریز کریں ۔ کچھ اہم ترجمان اس منصوبہ بندی کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے کے لیے دونوں اطراف سے گیم کھیل رہے ہیں‘ ان پر بھی نظر رکھنا ہو گی۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website