اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق بنگلا دیش پہنچنے والے روہنگیا مسلمانوں کی تعداد 2 لاکھ 70 ہزار ہوگئی ہے۔
میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی جاری ہے اور گزشتہ 15 دن میں خواتین اور بچوں سمیت سیکڑوں افراد مارے جاچکے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً ایک ہزار روہنگیا مسلمان تشدد کرکے ہلاک کردیئے گئے جب کہ متعدد گھر بھی نذر آتش کیے جاچکے ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ 2 ہفتوں میں 2 لاکھ 70 ہزار روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش پہنچے ہیں۔ میانمار میں مسلمانوں کے خلاف جہاں پاکستان میں احتجاج کیا جارہا ہے وہیں دنیا بھر میں اب ان مظالم کے خلاف آوازیں اٹھنا شروع ہوگئی ہیں جب کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بھی اس حوالے سے اپنا بیان دے چکے ہیں۔
روہنگیا مسلمانوں پر جاری مظالم کے بعد امن کی نام نہاد علم بردار آنگ سان سوکی سے نوبیل پرائز واپس لینے کا مطالبہ کیا جارہا ہے اور اس حوالے ایک آن لائن پٹیشن پر دستخط کی مہم بھی جاری ہے۔ گزشتہ روز آنگ سان سوکی نے روہنگیا مسلمانوں کے بحران سے متعلق معلومات پر شدید تنقید کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ روہنگیا مسلمانوں سے متعلق پھیلائی گئی جھوٹی خبروں نے میانمار میں مختلف کمیونیٹیز کے درمیان مسائل پیدا کئے ہیں۔ آنگ سان سوکی نے اپنے بیان میں ریاست راکھنی سے بنگلادیش کی جانب ہجرت کرنے والے روہنگیا مسلمانوں کی ملک چھوڑنے کی وجہ کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ سوکی نے کہا کہ جھوٹی خبروں سے دہشت گردوں کے مفاد کو فروغ ملا، ریاست راکھنی میں لوگوں کے تحفظ کے لئے ہر ممکن اقدامات کئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ غلط معلومات مختلف ممالک سے تعلقات کی خرابی کا باعث بن سکتا ہے جب کہ غلط معلومات کو پھیلا کر دہشت گرد اپنے مفادات چاہتے ہیں۔