لاہور (ویب ڈیسک ) امریکی صدر ٹرمپ نے بھی کہہ دیا کہ ’’بھارت اور پاکستان کے درمیان صورتحال انتہائی خراب ہے‘‘۔ بے شک دونوں طرف انگلیاں ٹرئیگر پر ہیں، سخت تنائو ہے، ذرا سی غلطی جنگ چھیڑ سکتی ہے، مگر اِس خوفناک غلطی کے امکانات بہت کم ہیں۔ ہاں ایک اور جنگ دونوں ممالک میں جاری ہے۔ نامور کالم نگار منصور آفاق اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔یہ جنگ عالمی عدالت انصاف میں لڑی جا رہی ہے کلبھوشن کے کیس میں بھارتی وکیل نے نواز شریف کا ایک بیان بطور ثبوت پیش کیا ہے اور اب غور کیا جارہا ہے کہ گواہی کے لئے انہیں بلایا جائے یا نہیں۔ بھارت کی استدعا پر عالمی عدالت نواز شریف کے پروڈکشن آرڈر جاری کر سکتی ہے۔ اگر ایسا ہو گیا تو نون لیگ کی رہی سہی سیاست بھی خاک میں مل جائے گی۔ پاکستان میں کوئی بھارت نواز لیڈر پاپولر ہو ہی نہیں ہو سکتا۔سچ یہی ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاء نے نواز شریف کو اسٹیبلشمنٹ کا مخالف بنا دیا۔ لندن میں جو میثاقِ جمہوریت ہوا تھا، جس کے بارے میں آصف علی زرداری نے کہا تھا، وہ کوئی حدیث نہیں، اُس کی ایک ایک سطر اِسی بات کی گواہ ہے۔ نواز شریف کے اِس مخالفانہ رویے کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ان کےدورِ اقتدار میں دو آرمی چیف آئے، انہوں نے دونوں کو خود چنا مگر دونوں کے ساتھ نہ چل سکے۔ بھارت بھی چونکہ پاکستانی فوج کو اچھا نہیں سمجھتا۔ شاید اِسی لئے نواز شریف (لاشعوری طور پر)بھارت کو اپنےدل کےقریب سمجھتے ہیں۔کوئی سات برس ہونے کو ہیں۔ نواز شریف نے مظفر آباد کے جلسے میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ’’اتنے ظلم بھارت نے کشمیریوں پر نہیں کئے جتنے پاکستانی فوج نے کئے‘‘ واپسی پر انڈین سفیر نے مشاہد حسین سے کہا ’’ہمیں خوشگوار حیرت کا سامنا ہوا کہ میاں نواز شریف نے کشمیر کی انتخابی مہم میں بھارتی اور بھارتی فوج کا تذکرہ منفی انداز میں نہیں کیا‘‘سوات میں دہشت گردی پر ایک سیمینار ہوا تھا جس سے یوسف رضا گیلانی اور جنرل اشفاق پرویز کیانی نے بھی خطاب کیا تھا اس کے بعد اس میں شریک ایک اخبار نویس ہارون الرشید کی ملاقات جنرل کیانی سے ہوئی تھی جس کا اُسی شام بعض چینلوں پر چرچا ہوا تھا۔ اُس ملاقات میں مشاہد حسین نےانڈین سفیر کی یہی گفتگو جنرل کیانی کو سنائی تھی جس پر پہلے تو وہ خاموش رہے پھر انہوں نے کہا کہ پاکستانی فوج کے خلاف بات کرنے سے کسی انتخابی مہم میں کسی سیاست دان کو کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا اور پھر آزاد کشمیر کےالیکشن میں نون لیگ بری طرح ہار گئی۔نواز شریف برسر اقتدار آنے کے چند ہفتوں بعد نریندر مودی کی تقریبِ حلف وفاداری میں شرکت کے لئے بھارت گئے۔ نواز شریف نے بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ کو اپنی تقریب حلف وفاداری میںشرکت کی دعوت دی تھی جسے قبول نہیں کیا گیا تھا۔ نواز شریف کو اپنوں نے مشورہ دیا کہ وہ بھارت نہ جائیں اور اگر جائیں بھی تو چند گھنٹوں کے بعد واپس آجائیں۔ جواباً اپنی کچن کیبنٹ کو یہی تاثر دیا اور بیان بھی یہی دیا کہ ابھی فیصلہ نہیں کیا۔ ابھی مشورہ کروں گا۔ ملٹری لیڈر شپ سے بھی۔ بعد میں انکشاف ہوا کہ انہوں نے نریندر مودی کو ٹیلی فون پر ہی ہاں کہہ دی تھی۔ اس پر ستم کہ ہائی کمیشن کو اپنی مصروفیات سے آگاہ رکھنے کی مقدس روایت کو بھی نظر انداز کردیا۔ وزیراعظم کی نقل و حرکت سے سفارت خانے کا آگاہ ہونا ضروری ہوتا ہے۔ کہیں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ملکی دفاع کے نقطہ نظر سے بھی یہ بات انتہائی خطرناک سمجھی جاتی ہے۔ عسکری قیادت نے اِس پر کھل کےاحتجاج کیا۔ شنید ہے کہ یہیں سے جنرل راحیل شریف اور نواز شریف میں سرد مہری کا آغاز ہوا۔ وہاں ایک انڈین چینل کے مالک سے بھی وعدہ کر آئے کہ پاکستان میں اُسے چینل کھولنے کی اجازت دی جائے گی۔ جب پیمرا کے چیئرمین نے ہمت سے کام لیتے ہوئے انکار کر دیا تو اسے ہٹا کر اپنا ایک صحافی دوست لگا دیا، چینل کی اجازت وہ بھی نہ دے سکا۔نواز شریف اپنے بیٹوں کو بھی ساتھ لے گئے تھے۔ ان کے ساتھ جندال کے گھر گئے پھر یہی جندال ویزے کے بغیر پاکستان آیا اور اسے مری لے جایا گیا پھر جندال نے کٹھمنڈو میں نریندر مودی اور نوازشریف کی خفیہ ملاقات کرائی جس کا راز ایک بھارتی صحافی نے فاش کر دیا، واپسی پر نوازشریف نے لنڈی کوتل سے کابل تک ریلوے لائین بچھانے کی تجویز پیش کی۔ ریلوے پہلے خسارے میں تھا۔ سعد رفیق جسےکم کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اُس نے بھی اس آئیڈیا کی مخالفت کی۔ پاکستان کی عسکری قیادت نے بھی یہ کہہ کر تجویز رد کر دی کہ کابل سے کچھ فاصلے پر جندال کی کوئلے کی کانیں ہیں۔ یہ کوئلہ ٹرکوں کے ذریعے ایک طویل فاصلہ طے کر کے بھارت پہنچتا ہے، اِس ریلوے لائین سے صرف جندال کو فائدہ پہنچے گا، پاکستان کو نہیں، اِس معاملےسے نوازشریف کے بھی مالی مفادات وابستہ تھے یا نہیں، اس کے متعلق کچھ نہیں کہا جا سکتا مگر یہ طے ہے کہ اُن کا جھکائو بھارت کی طرف رہا۔عالمی عدالت میں نواز شریف کا بیان اس وقت پاکستان کے لئے مسئلہ بنا ہوا ہے۔ انہوں نے ملتان میں ایک انگریزی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ممبئی حملوں میں پاکستان میں متحرک عسکریت پسند تنظیمیں ملوث تھیں،یہ لوگ ممبئی میں ہونے والی ہلاکتوں کے ذمہ دار ہیں، مجھے سمجھائیں کہ کیا ہمیں انہیں اس بات کی اجازت دینا چاہئے کہ سرحد پار جا کر ممبئی میں 150لوگوں کو قتل کر دیں۔اب بھارتی وکیل نے جب عالمی عدالت میں کہا: یہ بات وہ شخص کہہ رہا ہے جو تین مرتبہ پاکستان کا وزیراعظم رہا ہے، کیسے غلط ہو سکتی ہے۔ اُس کی یہ بات نظر انداز نہیں کی جا سکتی مگر ہم پاکستانی تو جانتے ہیں کہ یہ صریحاً جھوٹ ہے۔ اب عالمی عدالت کیا فیصلہ کرتی ہے، کچھ نہیں کہا جا سکتا مگر یہ بات پورے یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ نوازشریف نے اپنی سیاست تباہ کر لی۔ افسوس مریم کا مستقبل بھی برباد کر دیا۔ مجھے اُس کا بہت دکھ ہے، مریم پر پہلے صرف یہی داغ تھا کہ اس نے جیو ٹی وی میں انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا میری کہیں اور تو کجا پاکستان میں بھی کوئی جائیداد نہیں مگر اُس کے بھارت نواز غیر محتاط بیانات، اُسے لے ڈوبے ہیں۔ ڈان لیکس کا معاملہ سب کےسامنے ہے۔ لگ رہا ہے اب جیسے جیسے پاکستان اور بھارت میں کشیدگی بڑھے گی، ویسے ویسے شریف خاندان کی سیاست خراب سے خراب تر ہوتی جائے گی۔