آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے دوسرے بڑے صوبے سندھ سے رواں ماہ 25 جولائی کوہونے والےعام انتخابات میں 130 جنرل نشستوں پراگرچہ مجموعی طور90 سے زائد خواتین انتخابات لڑتی نظر آئیں گی۔
تاہم سندھ کے ضلع جیکب آباد کے صوبائی حلقے پی ایس 2 سے پہلی بار پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) شہید بھٹو کی جانب سے ایک خاتون کو انتخابی میدان میں اتارا گیاہے۔
اس حلقے سے پی پی شہید بھٹو کی نوجوان امیدوار فیروزہ لاشاری تجربہ کار، بااثر اور امیر سیاستدانوں کا مقابلہ کریں گی۔
حال ہی میں شاہ عبدالطیف یونیورسٹی خیرپور سے گریجویشن مکمل کرنے والی فیروزہ لاشاری کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ وہ شمالی سندھ کے 3 اہم اضلاع جیکب آباد، شکارپور اور کندھ کوٹ ایٹ کشمور سے بھی عام نشت پر انتخاب لڑنے والی پہلی خاتون ہیں۔ یہی نہیں بلکہ حیران کن طور پر وہ اپنی پارٹی کی بھی واحد خاتون امیدوار ہیں کیوں کہ اس بار ان کی پارٹی کی چیئرپرسن غنویٰ بھٹو بھی انتخابات میں حصہ نہیں لے رہیں۔
متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی فیروزہ لاشاری کے خاندان کا شمار بھی علاقے میں موجود ان ہزاروں خاندان میں ہوتا ہے جو اپنی محنت سے کما کر کھاتے ہیں۔
فیروزہ لاشاری سندھ کے ایک ایسے علاقے سے طاقتور اور بااثر مردوں کے مقابلے انتخابی میدان میں اتریں گی، جہاں غیرت کے نام پر خواتین کا قتل یا چھوٹی چھوٹٰی باتوں پر ان کا استحصال کرنا عام بات ہے۔
فیروزہ لاشاری جس حلقے سے انتخاب لڑ رہی ہیں، اس حلقے سے ان کے علاوہ دیگر 15 امیدوار بھی میدان میں اتریں گے۔
پی ایس 2 کی کم عمر ترین امیدوار فیروزہ لاشاری کا مقابلہ پیپلز پارٹی کے سہراب خان سرکی، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے طاہر حسین کھوسو، متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کے شاہ محمد سید، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے مولا بخش اور تبدیلی پسند پارٹی پاکستان (ٹی پی پی پی) کے محمد شریف سمیت دیگر امیدواروں سے ہوگا۔
کم وسائل کے باوجود فیروزہ لاشاری اپنے حلقے میں انتخابی مہم کے دوران متحرک نظر آتی ہیں، وہ نہ صرف گھرگھر جاکر لوگوں سے ووٹ مانگتی نظر آتی ہیں، بلکہ وہ کھیتوں اور دکانوں پر کام کرتے لوگوں سے بھی ووٹ کا تقاضا کرتی ہیں۔
فیروزہ لاشاری کا مقابلہ سہراب سرکی اور طاہر حسین کھوسو جیسے مضبوط امیدواروں سے مقابلہ ہوگا، تاہم ان کا کہنا ہے کہ انہیں اپنی کامیابی کا پورا یقین ہے، کیوں کہ حلقے کے لوگوں نے انتخابی مہم کے دوران انہیں ہی ووٹ دینے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں فیروزہ لاشاری کا کہنا تھا کہ وہ سیاست میں حلقے کے لوگوں کو شعور دلانے کے لیے آئی تھیں اور ان کا کام نظام اور لوگوں کو بدلنا ہے، ان کے آگے ہار اور جیت اہمیت نہیں رکھتی۔
فیروزہ لاشاری نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ ان کے سامنے انتخاب لڑنے والے دیگربااثر سیاستدانوں نے حلقے کے غریب عوام سے ان کے شناختی کارڈ چھیننے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔
خیال رہے کہ جس حلقے سے فیروزہ لاشاری انتخاب لڑ رہی ہیں، یہ حلقہ 2013 کے انتخابات میں پی ایس 15 تھا، جہاں سے پیپلز پارٹی کے امیدوار سہراب سرکی ہی جیتے تھے۔
اس سے قبل 2007، 2002 اور اس سے بھی پہلے سہراب سرکی ہی اسی حلقے سے منتخب ہوچکے ہیں۔
اس بار ان کے پیپلز پارٹی سے اختلافات ہوگئے تھے، جس وجہ سے ابتدائی طور پر یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ وہ آزاد امیدوار کی حیثیت میں لڑیں گے۔
تاہم بعد ازاں انہیں پیپلز پارٹی کی جانب سے ٹکٹ جاری کیا گیا۔
اگر 25 جولائی 2018 کو فیروزہ لاشاری اس حلقے سے الیکشن جیتنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں تو وہ نہ صرف اس حلقے سے منتخب ہونے والی پہلی خاتون ہوں گی، بلکہ وہ ممکنہ طور پر سندھ اسمبلی کی بھی کم عمر ترین رکن ہوں گی۔
تاہم اس حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔
اس حلقے میں 13 لاکھ سے زائد ووٹر رجسٹرڈ ہیں، جن میں سے نصف ووٹر خواتین ہیں، جنہوں نے فیروزہ کو ووٹ دینے کی یقینی دہانی کرا رکھی ہے۔
فیروزہ لاشاری کہتی ہیں اگر وہ منتخب ہوگئیں تو وہ نہ صرف اپنے علاقے میں خواتین کے حقوق سے متعلق کام کریں گی، بلکہ وہ اپنے حلقے کے عوام میں شعور پیدا کرنے کے لیے تعلیم و صحت جیسے منصوبوں پر بھی بہت بڑے پیمانے پر کام کرکے لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق فراہم کرانے میں کردار ادا کریں گی۔