تھائی لینڈ;تھائی لینڈ کی ایک غار میں دو ہفتوں سے پھنسے 12 بچوں اور ان کے فٹبال کوچ کو بچانے کے لیے کوشسیں جاری ہیں اور ان میں ابتدائی کامیابی بھی نظر آنے لگی ہے۔ تاہم صورتحال یہاں تک کیسے پہنچی اور ان غاروں کے بارے میں روایات کیا ہیں،
یہ جاننے کے لیے بی بی سی تھائی نے ہماری مدد کی۔اس مرحلے پر ہمیں یہ تو معلوم نہیں کہ ٹیم نے ان غاروں کا رخ کیوں کیا تھا۔ 23 جون کو مقامی وقت کے مطابق صبح دس بجے ٹیم پریکٹس کے لیے گئی اور 10 بج کر 42 منٹ پر اسسٹنٹ کوچ ایکپول نے ان کی پریکٹس کی فیس بک پر لائیو ویڈیو شائع کی۔تقریباً 3 بجے تھام لوآنگ خانم نانگنون نیشنل پارک کے عملے کو غاروں کے دہانے پر 11 سائیکلیں ملیں جس کے بعد تفتیش شروع کر دی گئی۔ بعد میں لڑکوں کے والدین میں سے ایک نے عملے کو بتایا کہ وہ اپنے بیٹے سے رابطہ نہیں کر پا رہے تھے۔ابتدائی تلاش اتوار 24 جون کو رات ایک بجے شروع ہوئی جب اس سے پچھلی شب دس بجے مقامی پولیس کو بتایا گیا۔تاہم مقامی میڈیا کے مطابق بچے غار میں اپنے ایک ساتھی کی سالگرہ کے سپرائز کا انتظام کرنے گئے تھے۔ گایم نامی اس ٹیٹ کا ایک رکن جو اس مرتبہ غاروں میں لڑکوں کے ساتھ نہیں گیا تھا، مقامی میڈیا کو بتا چکا ہے کہ ماضی میں وہ ان غاروں میں تین مرتبہ جا چکے ہیں تاہم کبھی بھی بارشوں کے موسم میں نہیں گئے۔ان کا کہنا ہے کہ وہ ہمیشہ غاروں میں جانے سے پہلے مکمل تیاری کرتے تھے
جس میں وہ جانے سے قبل کھانا کھاتے ہیں اور ٹارچ لائٹ لے کر جاتے ہیں اور اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ وہ جانے سے پہلے کھانا کھا کر جائیں۔گایم کا کہنا کہنا تھا کہ وہ اس مرتبہ اپنی ٹیم کے ساتھ اس لیے نہیں گئے کیونکہ اس روز ان کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ انھوں نے کہا کہ ان کی ٹیم ٹرینگ کے لیے ان غاروں میں جاتی ہے۔غار کے اندر سے لکھے ایک خط میں ایکپول نے اپنی دادی سے کہا وہ پریشان نہ ہوں، انھو ںنے سب ک سپورٹ کا شکریہ ادا کیا اور بچوں کے والدین سے معافی مانگی۔ٹیم کے غاروں میں جانے کے تھوڑی دیر بعد ہی مون سون کی بارش شروع ہوگئی۔ جنگل سے انے والا پانی غاروں میں بہنے لگا اور غاروں کے داخلے کا مقام بند ہوگیا۔جیسے غاروں میں پانی چڑھنے لگا لڑکوں اور ان کے کوچ کسی اونچے مقام کی تلاش میں مزید اندر جاتے رہے۔ تھام لوآنگ غار 10316 میٹر طویل ہیں اور تھائی لینڈ کے چوتھے طویل ترین غار ہیں۔برٹش کیوو ریسکیو کونسل کے بل وائٹ ہاؤس نے بی بی سی کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ غوطہ خوروں کو 1500 میٹر تک جزوی طور پر سیلاب زدہ غار سے گزرنا پڑا ہے۔ان غاروں کے بارے میں متعدد ملتی جلتی روایات موجود ہیں۔
ان غاروں کا نام تھام لوانگ کھن نم نانگ نون ہے جس کا مطلب ’پہاڑ پر سوئی ہوئی خاتون کا غار جو کہ ایک دریا کے جنم کا مقام‘ ہے۔ اس کا یہ نام کیسے پڑا، اس حوالے سے ایک روایت جو کہ عام ہے۔کہانی کچھ اس طرح ہے کہ چیانگ رونگ شہر (جو کہ موجودہ جنوبی چین کا شہر جِنگ ہانگ ہے‘ کی ایک شہزادی ایک گھڑسوار کے ساتھ حاملہ ہوگئیں۔ وہ دونوں اپنی جان بچانے کے لیے شہر سے بھاگ گئے اور جنوب کی جانب کوچ کیا۔جب وہ ان پہاڑیوں تک پہنچے تو شہزادی کے شوہر نے انھیں آرام کرنے کو کہا اور خود خوراک کی تلاش میں گئے مگر شہزادی کے باپ کے ملازمین ان تک پہنچ گئے اور انھوں نے شوہر کو مار دیا۔شہزادی کئی روز تک اپنے شوہر کا انتظار کرتی رہیں اور جب انھیں یقین ہوگیا کہ ان کے شوہر لوٹ نہیں سکتے تو اس نے خودکشی کر لی۔ کہا جاتا ہے کہ اس کا جسم پہاڑ کا حصہ بن گیا اور اس کے زخم سے بہنے والے خون سے دریا نام مائی سائے شروع ہوگیا۔مقامی میڈیا کے مطابق ایک سابق کمیونٹی لیڈر انسورن کائے سوم فونگ نے بتایا کہ 1986 میں ان غاروں میں ایک غیر ملکی سیاح سات روز تک لاپتہ ہوگئے تھے جس کے بعد انھیں بعا لیا گیا تھا۔ تاہم اس وقت کوئی سیلاب نہیں تھا۔اگست 2016 میں چینی زبان کے ایک استاد ان غاروں میں تین ماہ تک لاپتہ رہے۔ انھوں نے ایک قریبی دکان پر اپنی سائیکل کھڑی کر کے دکاندار کو یہ کہا تھا کہ وہ مراقبے کرنے لیے غاروں میں جا رہے ہیں۔ ان کے لیے سرچ آپریشن شروع کیا گیا تاہم وہ کامیاب نہ ہوسکا۔ تین ماہ بعد وہ خود ہی ایک قریبی ہوٹل تک پہنچ گئے۔