اسلام آباد: اپوزیشن جماعتوں نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد نواز شریف کے بیان سے متعلق قومی اسمبلی میں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی وضاحت کو مسترد کردیا۔
اسپیکر سردار ایاز صادق کی سربراہی میں قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے ممبئی حملوں سے متعلق نواز شریف کے بیان کی وضاحت کی، انہوں نے کہا کہ نواز شریف نے انٹرویو میں جو کہا اور اسے جس طرح لکھا گیا وہاں سے سارا معاملہ شروع ہوا، ان باتوں کو بھارتی میڈیا نے اپنے مقاصد کے لیے اٹھایا جسے آج یہاں پھیلایا جارہا ہے۔ نواز شریف نے یہ نہیں کہا کہ وہ لوگ جنہوں نے ممبئی میں حملہ کیا انہیں پاکستان سے جان بوجھ کر بھیجا گیا، ان اسٹیٹ ایکٹرز کے حوالے سے جو ایک جملہ ہے وہ غلط رپورٹ ہوا۔
پی ٹی آئی کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر شاہ محمود قریشی نے وزیر اعظم کی وضاحت کے جواب میں کہا کہ نوازشریف کا انٹرویو اخبارات کی زینت بنا، جسے بھارتی میڈیا نے اچھالا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ قومی سلامتی کمیٹی کا ہنگامی اجلاس بلایا گیا جس نے نوازشریف کا بیان مسترد کر دیا۔ ہم نوازشریف سے پوچھنا چاہتے ہیں اس بیان کی آخر کیا ضرورت تھی؟ ، وہ کہتے ہیں انہوں نے کیا غلط کہا، ان کے بیان سے ملکی مفادات کو کیا نقصان پہنچا۔ نوازشریف پاکستان کو بدنام کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑ رہے۔
پیپلز پارٹی کی شازیہ مری نے کہا کہ نواز شریف کے اس انٹرویو کے پیچھے پورا پس منظر موجود ہے، اس انٹرویو نے پاکستانیوں کے احساسات کو مجروح کیا، انہوں نے عدالتی فیصلے کے بعد دو اداروں کو نشانہ بنایا، اداروں کو نشانہ بنانے پر کامیابی نہ ملنے پر ملک میں انتشار پھیلایا جارہا ہے، نواز شریف کا بیانیہ جھوٹا ہے، وہ آج بھی کہہ رہے ہیں کہ پاکستان اس کا ذمہ دار ہے، پاکستان میں دہشت گرد موجود ہیں مگر ہم ان کو سپورٹ نہیں کرتے، آپ اپنے سیاسی کیریئر کو بچانے کے لئے پاکستان کو داؤ پر نہیں لگا سکتے، ہم آپ کو ایسا کرنے نہیں دیں گے، ہم نواز شریف کے اس بیان کو مسترد اور اس کی مذمت کرتے ہیں۔
ایم کیو ایم کی رکن قومی اسمبلی ثمن سلطانہ جعفری نے کہا کہ نواز شریف کا بیان 50 ہزار شہیدوں کی توہین ہے، وہ کہتے ہیں کہ وہ اپنے بیان پر قائم ہیں، نواز شریف وزیر اعظم رہے، اس وقت خاموش کیوں رہے؟ ۔ نواز شریف نے پانچ سالوں میں کالعدم تنظیموں کو کام کرنے کیوں دیا، عہدے سے ہٹنے کے بعد ایسی باتیں کیوں کی جاتی ہیں؟، ہم لوگوں کو سیاسی بنیادوں پر غدار قرار دینے کے ساتھ اس بیان کی بھی مذمت کرتے ہیں۔
جماعت اسلامی کے صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ ذمہ دار شخص کی جانب سے ایسی بات نہیں ہونی چاہیے، قومی سلامتی کمیٹی اور آرمی چیف نے بھی اس کی مذمت کی، اس بات کی بھی تحقیق ہونی چاہیے کہ بیان توڑ مروڑ کر تو پیش نہیں ہوا، اگر وہ صفائی نہیں دیتے تو ملکی سالمیت کی خلاف وزری پر کارروائی کی جائے، کارروائی صرف نواز شریف کے خلاف ہی نہ ہو، 1988 میں جس وزیراعظم نے سکھوں کی فہرست بھارت کو دی اس نے بھی غداری کی۔ بعد ازاں اپوزیشن نے ایوان سے واک آؤٹ کردیا۔