اسلام آباد (ویب ڈیسک) وزیر مملکت علی محمد خان نے شہباز شریف کو پبلک اکاونٹس کمیٹی کی سربراہی پیش کرنے کے پیچھے چھپی مجبوری بتاتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن پیچھے نہیں جا رہی تھی ، اس لیے حکومت ایک قدم پیچھے گئی ، تفصیلات کے مطابق آج حکومت کی جانب سے مسلم لیگ ن سے پبلک اکاونٹس کمیٹی کی سربراہی کے لیے نام مانگ لیا گیا ہے اور ممکنہ طور پر شہباز شریف ہی بلک اکاونٹس کمیٹی کے سربراہ ہوں گے ۔ اس پر بات کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ پر رکاوٹ سامنے آگئی ۔ چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی قائد حزب اختلاف کے علاوہ کسی اور کو بنانے کی بھی روایت ہے۔حزب اختلاف کے موجودہ سربراہ نیب کیسزسے دوچار ہیں۔سربراہ حزب اختلاف پر کیسز پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے نہیں ماضی کے کیسز ہیں ۔ اپوزیشن راستہ نکالے ۔ انہوں نے اپوزیشن کو پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ قائد حزب اختلاف کو جس پر اعتماد ہو چئیر مین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے لیے اس کا نام لے حکومت مان جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس معاملے کو ضد اور انا کا ایشو نہیں بنانا چاہئیے اور آگے بڑھنا چاہئیے۔ اس حوالے سے سابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کا موقف تھا کہ عمران خان کو مثبت یو ٹرن لینے پر مبارکباد دیتا ہوں، ہمارے جو دن ضائع ہوگئے وہ کور کرنے کی کوشش کریں گے، میاں شہباز شریف اپنے خلاف ہونے والی انکوائری سامنا کر رہے ہیں۔ تاہم اس حوالے سے تازہ اطلاعات یہ ہیں کہ کہ حکومت کی جانب سے شہباز شریف کو پبلک اکاونٹس کمیٹی سربراہی پیش کرنے کے پیچھے موجود مجبوری سامنے آگئی۔ اس حوالے سے بات کرتے ہوئے وزیر مملکت محمد علی خان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن پیچھے نہیں جا رہی تھی، اس لیے حکومت ایک قدم پیچھے گئی۔ ہم یہ کہہ رہے تھے کہ گزشتہ حکومت کا آڈٹ شہباز شریف کیسے کریں گے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ صرف پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا مسئلہ تھا، باقی کمیٹیاں بھی ایک ہفتے میں بن جائیں گی۔