لاہور(ویب ڈیسک)انسداد دہشتگردی عدالت نے سانحہ ماڈل ٹاﺅن میں عدم پیشی پر سابق ڈی آئی جی راناعبدالجباراورڈی جی فوڈ محمد عثمان کو گرفتار کرنے کا حکم دیدیا۔ تفصیلات کے مطابق انسداد دہشتگردی عدالت میں سانحہ ماڈل ٹاﺅن کی سماعت ہوئی، عدالت نے رانا عبدالجبار اور کیپٹن (ر)محمد عثمان کو آج طلب
کر رکھا تھا،عدالت نے عدم پیشی پر سابق ڈی آئی جی رانا عبدالجباراورڈی جی فوڈمحمد عثمان کو گرفتار کرنے کا حکم دیدیا۔عدالت نے ملزم اے ایس آئی وسیم اور اشرف کو اشتہاری قراردے دیا۔ عدالت نے ریمارکس دیئے ہیں کہ دونوں ملزمان متعدد بارطلبی کے باوجود پیش نہیں ہوئے،سی سی پی او لاہور دونوں ملزمان کوگرفتارکرکے پیش کرے، عدالت نے دونوں ملزمان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے،عدالت نے ملزم اے ایس آئی وسیم اور اشرف کواشتہاری قرار دے دیا اور سماعت کل تک ملتوی کردی۔ لاہور میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ کیس میں 115 ملزمان پر فرد جرم عائد کردی۔ انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں جج اعجاز حسن اعوان نے سانحہ ماڈل ٹاون استغاثہ کیس کی سماعت کی، اس دوران عدالت نے ڈی آئی جی رانا عبدالجبار سمیت 115 ملزمان پر فرد جرم عائد کی، تاہم تمام ملزمان نے صحت جرم سے انکار کردیا۔ دوران سماعت عدالت نے ڈی آئی جی رانا عبدالجبار کے عدالت میں پیش نہ ہونے پر ان کے وکیل کو ہدایت کی کہ وہ آئندہ سماعت پر انہیں پیش کریں۔ اس موقع پر عدالت نے غیر حاضر تمام ملزمان کو آئندہ سماعت پر عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا،
تاکہ ملزمان پر فرد جرم عائد کرنے کا عمل مکمل ہو سکے۔ عدالت کی جانب سے جن ملزمان پر فرد جرم عائد کی گئی ان میں ڈی آئی جی رانا عبدالجبار، ایس پی عبدالرحیم شیرازی، ایس پی عمر ورک، ایس پی معروف صفدر، ایس پی عمر ریاض، ڈی اسی پی آفتار احمد، رانا محمد اسلام، ڈی ایس پی محمود الحسن اور دیگر شامل ہیں۔ خیال رہے کہ استغاثہ کیس عوامی تحریک کی جانب سے دائر کیا گیا تھا، جس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف، وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف سمیت 12 سیاسی شخصیات، پولیس افسران، اہلکار اور ضلعی حکومت کے عہدیداروں کو فریق بنایا گیا تھا، تاہم عدالت نے استغاثہ میں سے سیاسی شخصیات کے نام ختم کر دیے تھے۔ یاد رہے کہ 17 جون 2014 کو لاہور کے علاقے ماڈل ٹاون میں تحریک منہاج القران کے مرکزی سیکریٹریٹ اور پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ کے سامنے قائم تجاوزات کو ختم کرنے کے لیے آپریشن کیا گیا تھا۔ آپریشن کے دوران پی اے ٹی کے کارکنوں کی مزاحمت کے دوران ان کی پولیس کے ساتھ جھڑپ ہوئی جس کے نتیجے میں 14 افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ 90 کے قریب زخمی بھی ہوئے تھے۔ بعدازاں حکومت نے اس واقعے کی انکوائری کروائی، تاہم رپورٹ کو منظرعام پر نہیں لایا گیا، جس کا مطالبہ سانحے کے متاثرین کے ورثاء کی جانب سے متعدد مرتبہ کیا گیا۔ گزشتہ برس اگست میں سانحہ ماڈل ٹاؤن میں جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین اور زخمیوں کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ میں جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ منظر عام پر لانے کے لیے درخواست دائر کی تھی۔