لاہور)ویب ڈیسک(سعودی عرب کے سرکاری وکیلِ استغاثہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ صحافی جمال خاشقجی کے قتل کا حکم ولی عہد محمد بن سلمان نے نہیں، بلکہ ایک سینئیر انٹیلیجنس اہلکار نے دیا تھا۔ایک ترجمان نے میڈیا کو بتایا کہ جمال خاشقجی کو 2 اکتوبر کو سعودی قونصل خانے میں خفیہ ایجنٹس کے ساتھ ہاتھا پائی کے بعد ایک جان لیوا انجیکشن دیا گیا۔ اس کے بعد ان کے جسم کے ٹکڑے کیے گئے، اور انہیں قونصل خانے سے نکلا گیا۔وکیلِ استغاثہ نے اس سلسلے میں 11 افراد پر فرد جرم عائد کی ہے جن میں سے 5 کے لیے سزائے موت تجویز کی گئی ہے۔ان کے مقدمات عدالت کے حوالے کیے گئے ہیں، جبکہ اسی سلسلے میں 10 مزید افراد کے بارے میں تفتیش جاری ہے۔ریاض میں ہونے والی پریس کانفرنس میں نائب وکیل استغاثہ شالان بن راجح شالان نے ملزمان کی شناخت ظاہر نہیں کی۔تاہم انہوں نے کہا کہ تفتیش سے یہ سامنے آیا ہے کہ ’قتل کا حکم دینے والا مذاکراتی ٹیم کا سربراہ تھا‘ جسے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ترکی بھیجا گیا تھا کہ وہ خاشقجی کو اپنی خود ساختہ ہجرت ختم کرکے سعودی عرب واپس آنا پر آمادہ کر سکیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’اس بارے میں ولی عہد کچھ نہیں جانتے تھے۔‘شہزادہ محمد بن سلمان کے ناقدین کہتے ہیں کہ اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ انہیں اس آپریشن کے بارے میں کچھ پتہ نہ ہو۔اس معاملے میں گرفتار ہونے والے 21 افراد میں سے کئی کو ان کی ذاتی سکیورٹی عملے کے ساتھ دیکھا گیا ہے۔ دو اعلیٰ سطحی مشیروں کو اس واقعے کے بعد نوکری سے نکال دیا گیا ہے۔ترکی کے صدر رجب طیب اردووان نے بھی کہا ہے کہ ’خاشقجی کے قتل کا حکم سعودی حکومت کی اعلیٰ ترین سطح سے آیا ہے۔‘شہزادہ محمد نے اس قتل میں کسی بھی طرح کے کردار سے انکار کیا ہے اور اسے ایک ’بہیمانے جرم‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’جیت انصاف کی ہوگی۔