کراچی: چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ مجھے یقین ہے کہ لاپتہ افراد کو میری ایجنسیوں نے نہیں اٹھایا ہوگا۔ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں لاپتا افراد سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت ہوئی۔ آئی جی سندھ امجد جاوید اور حساس اداروں کے افسران عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالت نے لاپتا افراد کی بازیابی کیلئے درخواستیں وصول کرلیں۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے حکم دیا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے لاپتا افراد کی معلومات اور بازیابی سے متعلق ترجیحی اقدامات کریں جس کے لئے خصوصی سیل بھی قائم کریں، اور اس ضمن میں سپریم کورٹ کے انسانی حقوق سیل کو باقاعدہ آگاہ کیا جائے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مجھے لاپتا افراد اور ان کے اہل خانہ کی حالت زار پر بہت افسوس ہوتا ہے، صرف جوان نہیں بلکہ57 سال کا بوڑھا شخص بھی لاپتا ہورہا ہے، لوگوں کو یہ پتا چل جائے کہ ان کے پیاروں کے ساتھ حادثہ ہوگیا تو شاید صبر آجائے، اللہ کرے یہ تمام افراد زندہ ہوں، مجھے یقین ہے میری ایجنسیوں نے انہیں نہیں اٹھایا ہوگا۔ اس پر درخواست گزار نے کہا کہ اگر ان اداروں نے نہیں اٹھایا تو تلاش کرنا ان کی ذمہ داری ہے۔ سماعت سے قبل لاپتا افراد کے اہلِ خانہ کی بڑی تعداد سپریم کورٹ کے باہر جمع ہوگئی۔ پولیس نے لاپتا افراد کے اہلِ خانہ کو سپریم کورٹ کے اندر جانے سے روک دیا، جس پر مظاہرین نے پولیس کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔ خواتین اور بچوں سمیت شہریوں نے لاپتہ افراد کی تصاویر کے ہمراہ احتجاج کیا اور اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے دہائیاں دیں۔ سماجی کارکن جبران ناصر بھی اظہارِ یکجہتی کے لئے اس موقع پر موجود تھے۔ لاپتہ افراد کے گھر والے زار و قطار رونے لگے اور فریاد کی کہ اگر ہمارے پیارے مرگئے ہیں تو ہمیں بتایا جائے، ہمارے بچے کئی سال سے لاپتہ ہیں ہمیں ان کے بارے میں کچھ معلوم نہیں، ہر انصاف کا دروازہ کھٹکھٹایا، اب ہم کس کے در پر جائیں۔ سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے ہر لاپتا شخص کے ایک ایک رشتے دار کو عدالت میں بلالیا۔ درخواست گزار نیلم نے عدالت کے روبرو پیش ہوکر بتایا کہ اس کے والد 14 ماہ سے لاپتا ہیں۔ اس دوران دیگر خواتین نے زار و قطار رونا شروع کر دیا جس پر کمرہ عدالت میں شور شرابہ اور چیخ و پکار شروع ہوگئی جب کہ ایک خاتون نے روسٹرم پر مکہ بھی مار دیا۔ اہل خانہ نے الزام لگایا کہ ان کے پیارے خفیہ اداروں کے پاس ہیں۔ چیف جسٹس نے شہریوں کو خاموش ہونے کا حکم دیا تاہم وہ خاموش نہیں ہوئے جس پر چیف جسٹس کوئی حکم نامہ جاری کیے بغیر اٹھ کر چلے گئے اور انہوں نے آئی جی سندھ اور ڈی جی رینجرز کو چیمبر میں طلب کرلیا۔ کچھ دیر کے وقفے کے بعد چیف جسٹس نے دوبارہ سماعت شروع کی اور مکہ مارنے والی خاتون کو دوبارہ روسٹرم پر بلا لیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ غیر مشروط معافی مانگیں جس پر خاتون نے معافی مانگ لی۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ آپ کی جگہ کوئی مرد ہوتا تو میں اسے جیل بھیج دیتا، مجھے قوم کی بیٹیوں سے اس بد تہذیبی کی توقع نہیں تھی، آج ابھی درخواستوں نہیں سنوں گا۔ چیف جسٹس نے تمام درخواستیں وصول کرکے کارروائی کا حکم دے دیا۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے لاپتہ افراد کا از خود نوٹس لیتے ہوئے ڈی جی رینجرز، آئی جی سندھ کے ساتھ ساتھ ایم آئی، آئی ایس آئی اور آئی بی کے صوبائی سربراہان کو معاملے پر جواب جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔