حبیب جالب سے معذرت کے ساتھ
دیپ اب تو محلات ہی میں جلے
ساری خوشیاں ہماری ہی لے کر چلے
سائے میں ہر مصلحت کے پلے
یہی دستور ہے جو کہ پُر نور ہے
میں یہی مانگتا میں یہی مانگتا
اپنے خاندان چھائے رہیں ہر طرف
جس طرف دیکھوں پھلے رہیں ہر طرف
ہم مر کر بھی زندہ رہیں ہر طرف
فقط اپنی موجیں فقط اپنے میلے
میں یہی مانگتا میں یہی مانگتا
ہیں محلات اپنے ہر یک ملک ًمیں
دولت ہے بکھری ہر اک ملک میں
اب آئے ہیں لینے بچا ملک میں
جمہوریت کا کھیل یونہی چلتا رہے
میں یہی مانگتا میں یہی مانگتا
پائی ہے مغلوں کی میراث ہم نے
جمہوریت میں پائی ہے معراج ہم نے
اپنی بقاء ہم نے پائی ہے اس میں
کریں حکمرانی ہماری اولادیں
میں یہی چاہتا میں یہی چاہتا
زرداری شریف ساتھ مل کے چلیں
ناچتے گاتے گدھے اپنے پیچھے چلیں
غریب زندہ ہوتے ہوئے مر چلیں
ہر ٹھیکے میں ہم کو کمیشن ملے
میں یہی مانفتا میں یہی مانگتا
بجلی اتنی ہے جتنی کہو ملک میں
گیس کی اب تو قلت نہی ملک میں
کیسے مانوں یہ دونوں ہی آتی نہیں
اس بکواس کو جھل کی بات کو
میں نہی مانتا میں نہی مانتا
بیروز گاروں کی لمبی قطاریں لگیں
آلودہ پانی ہے پینے کا اس ملک میں
تعلیم بچوں کو ملتی نہیں
اس کھولے چھوٹ کو اس سفید چھوٹ کو
میں نہی مانتا میں نہی مانتا
اگر بھوک ہے تو نہ غم کھائے کوئی
علاج گر اپنا نہ کر پائے کوئی
نہ سوچو دھماکے میں مر جائے کوئی
چھوٹی سی بات ہے کیا بڑی بات ہے
میں نہی مانتا میں نہی مانتا
کیا بکتا ہے انصاف اس ملک میں
تھانے بکتے ہیں کیسے بھلا ملک میں
کون کہتا ہے انصاف نہی ملک میں
ّعدل ہر عدالت سے ہم کو ملا
میں یہی جانتا میں یہی جانتا