لاہور (ویب ڈیسک) بہار آتی ہے تو لاہور پر ایک سحر سا طاری ہو جاتا ہے۔ زمین کے کونے کونے سے روئیدگی پھوٹتی ہے اور اینٹ اینٹ سے سبزہ جھلکنے لگتا ہے۔ آموں میں بور پڑتا ہے اور بکائین کے پھولوں کی پاگل کر دینے والی خوشبو حواس پر سوار ہونے لگتی ہے۔ نامور خاتون کالم نگار آمنہ مفتی بی بی سی کے لیے اپنے ایک کالم میں لکھتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اچھے وقتوں میں اس موسم میں لاہور کا آسمان پتنگوں سے ڈھکا ہوا ہوتا تھا۔ چونکہ اچھے دن ہمیشہ باقی نہیں رہتے اس لیے وہ دن بھی گزر گئے۔ اب لاہور کے آسمان پہ چیلیں اڑتی ہیں اور ٹی وی چینلز پر دل دہلا دینے والی خبریں چلتی ہیں۔ ایسی خبریں جن کو سن کر یہ سمجھ آ جاتا ہے کہ بسنت کا تہوار کیوں ختم کیا گیا۔ لاہور ہی کی رہائشی ایک لڑکی کو اس کے شوہر نے سر کے بال مونڈ کر تشدد کا نشانہ بنایا اس لیے کہ وہ اس کے دوستوں کے سامنے ڈانس نہیں کر رہی تھی۔ دوسری خبر پشاور سے آئی کہ ایک لڑکی کے شوہر نے اس کا سر مونڈ دیا کیونکہ شادی کی تقریب کے دوران اس کے سر سے دوپٹہ کھسک گیا تھا۔ دونوں خبروں میں قدرِ مشترک یہ ہے کہ ملزم نے لڑکیوں کے سر مونڈ دیے۔ ایک لڑکی کو اس جرم کی سزا ملی کہ وہ ناچنا نہیں چاہتی تھی اور دوسری کو اس بات کی کہ وہ دانستہ یا نادانستہ سرنہ ڈھانک سکی۔ لاہور میں تشدد کا نشانہ بننے والی لڑکی کو سوشل میڈیا پر بھی مطعون کیا جا رہا ہے۔ ہمارے سوشل میڈیا مبلغین کا کہنا ہے کہ چونکہ وہ لڑکی پہلے بھی رقص کرتی تھی اور اس نے محبت کی شادی کی تھی لہٰذا اسے اس بار انکار کا کوئی حق نہیں تھا۔ اس دلیل کے حق میں ایک ویڈیو بھی پیش کی جا رہی ہے کہ جو لڑکی ایک بار ایسے رقص کر سکتی ہے وہ دوبارہ بھی کر سکتی ہے۔ یہ کوئی پہلا اور آخری واقعہ نہیں ہے۔ کئی بار یہ حادثات پیش آ چکے ہیں جن میں ایسی خواتین جو رقص کرتی ہیں یا گائیکی کا پیشہ اختیار کیے ہوئی ہیں تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔ ایک مشہور فلم سٹار سے لے کر آج اسما تک واقعات کا تسلسل ہے۔ یہاں تو معاملہ بال مونڈنے تک محدود رہا ورنہ کئی خواتین کے نصیب میں تو انکار کے جواب پر موت لکھ دی جاتی ہے۔ اس کی وجہ ہمارے معاشرے کا یہ رویہ ہے کہ ہم یہ مان لیتے ہیں کہ فلاں عورت چونکہ اس شعبے سے منسلک ہے اس لیے اسے کسی بھی بات سے کسی بھی وقت کسی کے لیے بھی انکار کا کوئی حق نہیں۔ ایک ناچنے والی کو بھلا یہ حق کس نے دیا کہ وہ اپنی مرضی چلائے؟ اسما کی ذاتی زندگی جو بھی تھی اس پر تشدد کا حق کسی کو نہیں تھا۔ وہ اپنا معاملہ ریاست کے سامنے رکھ چکی ہے اور بھلے ملکوں میں ریاست ایسے معاملات کو خود ہی دیکھتی ہے لیکن ریاست بھی روبوٹ تو نہیں چلا رہے۔ کیا ضمانت ہے کہ جو عمومی رویہ ہمیں سوشل میڈیا پر نظر آ رہا ہے وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں میں بیٹھے افراد کا نہیں ہو گا؟ پشاور میں جس لڑکی کے بال مونڈے گئے وہ مبینہ طور پہ اپنا سر نہ ڈھانک پائی تھی۔ دونوں صورتوں میں مائینڈ سیٹ ایک ہی ہے۔ عورت کو ملکیت سمجھنا۔ سر سے دوپٹہ اترنے سے اگر کوئی سماجی یا دینی جرم سر زد ہوا تو اس کا گناہ یا نقصان اس لڑکی کا اپنا تھا نہ کہ اس شخص کا جس نے اس پر تشدد کیا۔ کوہستان میں قتل کی گئی چار لڑکیوں کی موت کے پیچھے بھی یہ ہی سوچ کار فرما تھی۔ عورت تو لونڈی ہے، باندی ہے، اسے ہنسنے کا، کسی کا رقص دیکھنے کا حق بھی حاصل نہیں اور جو یہ حق مانگے گی اسے مار دیا جائے گا۔ اس کے لیے جو آواز اٹھائے گا اسے بھی مار دیا جائے گا۔ آوازوں کا قتل کرنے کی اس مہم میں ہم سب برابر کے شریک ہیں۔ عورت جب بھی خود پر ہونے والی زیادتی کے خلاف آ واز اٹھائے گی، ہمارے پاس اس کے لیے گالیوں کا طوفان اور بدکاری کے طعنوں کا ٹوکرا موجود ہے۔ چادر اور چار دیواری کے تقدس کا ذکر کرتے کرتے جن لوگوں کے منہ سوکھتے ہیں وہ وقت آنے پر مشکل میں کھڑی عورت کی چادر کھینچنے میں سب سے آگے ہوتے ہیں۔بہار اپنے عروج پر ہے اور آسمان پر ایک بھی پتنگ نہیں۔ زندگی کی خوبصورتیوں کی دشمن قوم کے لیے یہ ہی سزا بہت بڑی ہے کہ وہ اس سال بھی بسنت منانے سے محروم رہے۔ اگر بسنت کی اجازت مل جاتی تو یہ اس کے حسن کو بھی خود کار ہتھیاروں کی آوازوں، کیمیکل ڈور، رات بھر جاری رہنے والی پارٹیوں اور اپنے فسادی مزاج کے باعث اٹھائے جانے والے جھگڑوں سے داغدار کر دیتے۔اب یہ ہے کہ آسمان پر چیل گوشت کے انتظار میں اڑتی چیلوں کو دیکھیے اور اپنے اعمال اور افعال کا جائزہ لیتے رہیے۔