کراچی کیلئے 70 ارب میں 12 ارب کا خصوصی پیکیج بھی شامل ، 120 گز کے مکانات پر ٹیکس کی خبر درست نہیں، طلباء کی نرولمنٹ اور امتحانی فیس بھی حکومت ادا کرے گی: وزیر اعلیٰ
کراچی: سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ ہم نے 20 فیصد سے زائد بجٹ تعلیم کے لیے مختص کیا ہے ۔ صوبے کے غریب ترین افراد کے لیے رمضان و عید پیکیج کی مد میں
340 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت رجسٹرڈ 17 لاکھ افراد میں فی کس 2 ہزار روپے تقسیم کیے جائیں گے ۔ کراچی کی ترقی کے لیے 70 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ میگا پراجیکٹس کے لیے 12 ارب، کے فور کے لیے 15 ارب روپے ، ایس تھری منصوبے کے لیے 3 ارب روپے رکھے گئے ہیں ۔ صوبائی مالیاتی کمیشن بن چکا ہے ۔ ایوارڈ کا فیصلہ جلد ہو گا ۔ 120گز کے مکان پر ٹیکس کی خبر غلط ہے ۔
کم از کم اجرت 14 ہزار روپے سے بڑھا کر 15 ہزار روپے کردی گئی ہے ۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں 15 فیصد اضافہ کیا گیا ہے ۔ طلباء کی امتحانات اور انرولمنٹ کی فیس بھی حکومت سندھ ادا کرے گی ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کو سندھ اسمبلی کے آڈیٹوریم میں پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ اس موقع پر وزیر اطلاعات، ٹرانسپورٹ اور محنت سید ناصر حسین شاہ ، وزیر منصوبہ بندی و ترقیات میر ہزار خان بجارانی، وزیر ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن مکیش کمار چاؤلہ اور سندھ حکومت کے اعلیٰ افسران بھی موجود تھے ۔
وزیر اعلیٰ سندھ نے بتایا کہ کراچی کے لیے 12 ارب کا خصوصی ترقیاتی پیکیج رکھا گیا ہے ۔ سندھ نے وفاق سے مطالبہ کیا ہے کہ اشیاء پر سیلز ٹیکس بھی صوبوں کے حوالے کیا جائے اور کراچی کو خصوصی پیکیج دیا جائے کیونکہ کراچی ملک کے ریونیو میں سب سے زیادہ حصہ ڈالتا ہے ۔ وفاق ہمیشہ کم فنڈز دیتا ہے ۔ رواں مالی سال کے دوران وفاق نے 493 ارب روپے دینے کا وعدہ کیا تھا۔ ٹیکسوں کی وصولی میں وفاقی حکومت کی کارکردگی بہتر نہیں رہی ، اس لیے ہمارا حصہ کم کرکے 480 ارب روپے کردیا گیا ہے ۔ اب تک 60 ارب روپے کا شارٹ فال ہے ۔ رواں ماہ وفاق سے 108 ارب لینے ہیں مگر کچھ پتا نہیں کہ یہ مل پائیں گے یا نہیں ۔
بجلی کے معاملے میں وفاقی حکومت سوتیلی ماں کا سا سلوک کر رہی ہے ۔ کے الیکٹرک، حیسکو اور سیپکو تینوں اداروں کی کارکردگی خراب ہے ۔ ہم نے بلوں کی مد میں 27 ارب روپے ادا کیے ہیں ۔ انہوں نے صحافیوں کو حیسکو اور سیپکو کے نو آبجیکشن سرٹیفکیٹس بھی دکھائے ۔ کے الیکٹرک کو اب شنگھائی الیکٹرک چلائے گی ۔ کراچی کی طلب تین ہزار میگا واٹ ہے ۔ شنگھائی کی طلب 22ہزار میگاواٹ ہے ۔ ضلع جنوبی کراچی میں چائنیز کمپنی صفائی کا کام بہتر طریقے سے کر رہی ہے ۔ کراچی لنک روڈ پی پی پی موڈ پر کام ہورہا ہے ۔ لنک روڈ سے ملیر 15تک سڑک ضرور بنواؤں گا۔ کراچی سرکلر ریلوے پر بھی کام شروع ہو چکا ہے ۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ آئندہ سال کا ترقیاتی بجٹ 3 کھرب 44 ارب روپے کا ہے ، لیکن غیر ترقیاتی بجٹ میں بھی بہت سے اخراجات ترقیاتی اخراجات کے زمرے میں آتے ہیں ۔ سرکاری عمارتوں کی مرمت اور مینٹی ننس کے لیے 25 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ یہ رقم اگرچہ غیر ترقیاتی بجٹ میں شامل ہے لیکن اس کی نوعیت ترقیاتی ہے ۔
اسی طرح سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورو لوجی اینڈ ٹرانسپلانٹ کو 4.5 ارب روپے ، قومی ادارہ برائے امراض قلب کو 5.8 ارب روپے ، انڈس اسپتال کو ایک ارب روپے ، بورڈز اینڈ یونیورسٹیز کو 5 ارب روپے دیئے گئے ہیں ۔ یہ تمام رقوم بھی ترقیاتی نوعیت کی ہیں۔ میرا زور بنیادی ڈھانچے سے زیادہ تعلیم پر ہے ۔ صحت عامہ کا بجٹ 102 ارب روپے ہے ۔ آئندہ سال لاڑکانہ اور سیہون شریف میں دو سیٹلائٹ اسپتال قائم کیے جائیں گے جو کراچی کے قومی ادارہ برائے امراض قلب سے منسلک ہوں گے ۔ رواں مالی کے دوران سندھ میں پولیو کا کوئی کیس نہیں ہوا ۔
ہسپتالوں کو ادویہ کی فراہمی کے لیے 7 ارب 90 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں ۔ عالمی بینک کے تعاون سے 10 ارب روپے کا امپروومنٹ پروگرام شروع کیا جا رہا ہے ۔ رواں سال کے کراچی کے ترقیاتی منصوبے جون سے ستمبر تک مکمل کر لیے جائیں گے ۔ رواں سال 225 ارب میں سے کے اے ڈی پی میں 190 ارب روپے خرچ ہو جائیں گے ۔ ہمارے ٹیکس وصول کرنے والے اداروں کی کارکردگی بہتر ہے ۔ آئندہ سال خدمات پر سیلز ٹیکس کا ہدف ایک کھرب روپے رکھا گیا ہے ۔ پراپرٹی ٹیکس کی مد میں صرف 180 کروڑ وصول ہوتے ہیں ۔ بھارت کا شہر بنگلور رقبے اور آبادی کے لحاظ سے کراچی کا ایک تہائی ہے ، مگر وہاں سے پراپرٹی ٹیکس کی مد میں 40 ارب روپے حاصل ہوتے ہیں ، جو پاکستانی کرنسی میں 60 ارب روپے بنتے ہیں ۔
پراپرٹی ٹیکس مقامی حکومتوں کا حق ہے ۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے بتایا کہ ذوالفقار آباد میں بنیادی ڈھانچے پر کام ہو رہا ہے ۔ بھرتیاں میرٹ کی بنیاد پر کی جا رہی ہیں۔ اہم عہدوں پر اہل لوگوں کو متعین کیا جا رہا ہے ۔ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں انحطاط تسلیم کرنا پڑے گا ۔ ہم پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ذریعے معاملات کو درست کر رہے ہیں ۔ سندھ سیکریٹریٹ کا بجٹ 220 کروڑ سے کم کر کے 56 کروڑ 20 لاکھ روپے کر دیا گیا ہے ۔ ایک سوال پر سید مراد علی شاہ نے کہا کہ ہم افسران کی صلاحیتیں بڑھانے پر کام کر رہے ہیں ۔ جب میں نے کراچی میں کام شروع کیا تو انجینئرز نہیں مل رہے تھے۔ جو اچھے انجینئرز تھے وہ ملک چھوڑ کر چلے گئے۔