پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کا کہنا ہے کہ آزاد اور خود مختار ریاستیں ہر فیصلہ اپنے قومی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے کرتی ہیں اور حافظ سعید کی نظر بندی کا فیصلہ پالیسی فیصلہ ہے جو ریاستی اداروں نے مل کر کیا ہے۔حافظ سعید کی نظر بندی کی خبر پر منفی پروپیگنڈہ سے متعلق پاک فوج نے اپنا واضح موقف بیان کیا۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ” آئی ایس پی آر“ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے تنبیہ کی ہے کہ حساس معاملات پر قیاس آرائی نہ کی جائے۔ یہ قیاس آرائیاں ریاستی اداروں کے درمیان فاصلے پیدا کر سکتی ہیں۔چند عناصر بے یقینی اور عدم استحکام کا تاثر دے کر قومی یکجہتی کو نقصان پہنچا نے کی کوشش کرتے ہیں۔ حافظ سعید کی نظر بندی ایک پالیسی فیصلہ ہے جو ریاستی اداروں نے مل کر قومی مفاد میں کیا ہے۔ پریس بریفنگ کے دوران میجر جنرل آصف غفور نے اس حوالے سے امریکی دباﺅ کے تاثر کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ آزاد قومیں اپنے قومی مفادات کے تحت فیصلے کرتی ہیں۔ یاد رہے کہ کالعدم تنظیم لشکر طیبہ کے بانی حافظ سعید ایک متنازعہ شخصیت رہے ہےں۔ اندرون اور بیرون ملک ان کے بارے میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ حافظ سعید کی نظر بندی پر پاک فوج کے بیان کے بعد معاملہ کی تہہ تک پہنچنا مشکل نہیں اور نہ ہی ان کی نظر بندی پر تشویش ہونی چاہیے۔ حافظ سعید کا کردار سمجھنے کے لئے ان کا پس منظر جاننا ضروری ہے۔ حافظ محمد سعید کی پیدائش اس وقت ہوئی جب ان کا خاندان انڈیا سے ہجرت کرکے پاکستان پہنچا۔ ہجرت کے اس سفر میں ان کے خاندان کے 36 افراد شہید ہوئے۔ خاندان کا کوئی بچہ زندہ نہ رہا۔ حافظ محمد سعید کا بچپن سرگودھا میں گزرا جہاں انہوں نے اپنی والدہ سے قرآن حفظ کیا اور گاﺅں کے اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ میٹرک کے بعد مزید تعلیم کے لیے اپنے ماموں اور معروف عالم دین کے پاس بہاولپور چلے گئے۔اس دوران بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں ایک نئی علیحدگی پسند تحریک نے جنم لیا۔ اسی کی دہائی کے ختم ہوتے ہوتے، حافظ سعید نے کشمیر میں جاری تحریک میں باضابطہ طور پر شمولیت اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ انیس سو نوے تک انکے پاس اتنی تعداد میں تربیت یافتہ ’جہادی‘ موجود تھے جنکے بل بوتے پر انہوں نے لشکر طیبہ کے نام سے ایک نئی تنظیم کی بنیاد رکھی۔ جو افغانستان میں روس کے خلاف جہاد کے دوران وجودمیں آئی۔ افغانستان سے روس کی واپسی کے بعد اس جماعت نے کشمیر کا رخ کیا۔ اپنے مخصوص انداز کی وجہ سے لشکر نے بہت جلد نام پیدا کیا اور اپنا نیٹ ورک وادی سے کشمیر کے ہندو اکثریت والے علاقے جموں تک وسیع کردیا۔2001میں صدر مشرف نے عالمی دباﺅ پر لشکر طیبہ پر پابندی عائد کردی۔ جس کے بعد اس نے اپنا تنظیمی ڈھانچہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں منتقل کردیا اور اپنی جہادی کاروائیاں جاری رکھیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق اب تک 5500کارکنان بھارت کیخلاف جہادی کاروائیوں میں جان دے چکے ہیں۔
اور پھر امریکہ میں گیارہ ستمبر دو ہزار ایک کے حملے ہوگئے جس کے بعد کچھ گروہوں کو باضابطہ طور پر دہشت گرد قرار دیا گیا۔ کشمیر کے بارے میں پاکستانی اور بھارتی حکومتوں کے درمیان خاموش معاہدے ہوئے جنکے نتیجے میں کشمیر میں عسکری کارروائیوں کا سلسلہ سرد پڑتا چلا گیا۔لشکر طیبہ اس وقت ایک نئی صورتحال سے دو چار ہوئی جب نومبر دو ہزار ایک میں بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ ہوا جس پر حافظ سعید اور ان کی تنظیموں کے خلاف کارروائی کے لیے بھارت کا پاکستان پر دباﺅ بڑھا حافظ سعید نے لشکر طیبہ کا نام بدل کر جماعت الدعوہ رکھ دیا۔ 2008 میں لشکر طیبہ پر پابندی لگا دی گئی اور حافظ محمد سعید کو نظر بند کر دیا گیا۔ممبئی حملے کے بعد لشکر طیبہ دنیا بھر کے میڈیا کی توجہ کا مرکز بن گئی۔ حافظ سعید کی نظر بندی کے فیصلے پر پاک فوج کے بیان پر پاکستان کے عوام کو مکمل اعتماد ہے کہ ان کی خفیہ و اعلانیہ سرگرمیوں سے پاک فوج سے زیادہ کوئی باخبر نہیں ہو سکتا۔