پاکستان کی تباہی، بربادی اور زوال میں جتنا حصہ پاکستان کی بیوروکریسی کا ہے، کسی اور کا نہیں۔ ایک سیاستدان موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے لیکن انکی بھول بھلیوں سے بھرپور فائل اور نوٹ پورشن سمجھ نہیں پاتا۔ ایک جرنیل اور اسکی فوج ظفر موج جب اقتدار پر قابض ہوتی ہے تو وہ برسوں کاروبار حکومت سمجھنے میں ان کی محتاج رہتی ہے۔ یہ اسے جس طرح چاہیں، جیسا چاہیں اور جس طرف چاہیں موڑ دیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ اپنے فن میں طاق اور اپنی چالوں میں پختہ ہو چکے ہیں۔
آغاز پاکستان سے ہی انہوں نے قومی و ملکی مفاد پر اپنی سروس جسے یہ انڈین سول سروس کا ایک سپوت کہتے تھے، اسے مقدم رکھا۔ یہ اس ملک کی اسٹیبلشمنٹ کے سینئر پارٹنر تھے جبکہ فوج، 1958 کے مارشل لاء تک انکی جونیئر پارٹنر تھی۔ ایوب کے اقتدار سنبھالنے کے بعد فوج سینئر پارٹنر تو بن گئی لیکن راج سنگھاسن پر انہی بیوروکریٹس کے مشورے چلتے رہے اور یہ لوگ پس پردہ حکومت حکومت کرتے رہے۔ یہ ایک طویل تاریخ ہے، بہت خونچکاں اور دکھ بھری۔ اس میں قیام پاکستان سے اقتدار پر قابض بیوروکریٹس کی کرپشن بھی ہے اور ملکی مفاد کے سودے بھی۔ کرپشن کا عالم یہ تھا کہ پچاس کی دہائی میں ایک وفاقی سیکرٹری کے ہونہار بیٹے، جو بعد میں وزیر خزانہ اور گورنر بھی بنے، اسکی شادی کے تحائف میں چھ عدد مرسیڈیز گاڑیاں بھی شامل تھیں اور سیاسی مداخلت کا عالم یہ کہ جب پاکستان کی پہلی اسمبلی برخاست کی گئی، تو اسمبلی توڑنے والا ملک غلام محمد اور اقتدار پر بحیثیت بٹھائے جانے والا محمد علی بوگرہ، دونوں بیوروکریسی کے تحفے تھے۔ پاکستان کا پہلا مارشل لاء 27 فروری 1957 کو ایک بیورو کریٹ سیکرٹری دفاع سکندر مرزا نے یوں لگایا کہ قادیانیوں کے خلاف تحریک پر کابینہ کا اجلاس جاری تھا، وزیراعظم خواجہ ناظم الدین پریشان حال تھے کہ وہ اٹھا اور لاہور کے کمانڈنگ آفیسر جنرل اعظم کو فون کیا اور کہا کہ مارشل لاء لگادو۔ واپس آکر کابینہ کو بتا دیا کہ میں نے یہ حکم جاری کردیا ہے، اب امن ہوجائیگا۔ اسی شخص نے 7 اکتوبر 1957 کو ایوب خان کو ساتھ ملا کر ملک میں دوسرا مارشل لاء لگایا اور پھر 27 اکتوبر کو جب انکم ٹیکس ٹربیونل کے سربراہ سے ترقی کرکے چیف جسٹس بننے والے متنازعہ ترین چیف جسٹس منیر نے مارشل لاء کو جائز انقلاب قرار دیا تو ایوب خان نے اپنے سینئر پارٹنر بیورو کریٹ سکندر مرزا کو ایوان صدر سے نکالا اور اس دن سے فوجی بیورو کریسی سینئر پارٹنر بن گئی اور سول بیورو کریسی جونیئر پارٹنر۔ لیکن سارے گرْ ، ساری چالیں،سب ہتھکنڈے بیوروکریٹس کو آتے تھے اس لئے اقتدار کے تخت پر سیاستدان ہوں یا فوجی، آنکھوں کا تارا یہی بنے رہتے ہیں۔
ان میں سے بہت کم ایسے ہیں جو “بعداز مرگ” واویلا مچاتے ہیں یعنی ریٹائرمنٹ کے بعد سوانح عمریاں اور کتابیں تحریر کرتے ہیں۔ پوری زندگی سیاستدانوں کی چوکھٹوں پر سجدہ ریز رہے ہوتے ہیں، اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز ہوتے ہیں، لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد قلم کو تلوار بنا لیتے ہیں۔ جو قلم نہیں تھامتے، وہ ہرآنے والی حکومت کے ساتھ مشیر بن کر اسے مشوروں کے تالاب میں غرق کر دیتے ہیں۔ پاکستان کی ستر سالہ تاریخ انکے دیے گئے زخموں کی داستان ہے ۔ ان داستانوں میں تازہ دکھ کی وہ کہانی ہے، جو ابھی تک مشوروں کی صورت چل رہی ہے۔ پاکستان کے ترقیاتی منظر نامے کی بدقسمتی ہے کہ لاہور اور اسلام آباد کے درمیان سفر کرنے والے بیوروکریٹس کی اکثریت اقتدار پر کم از کم گزشتہ پچاس سال سے قابض ہے۔ اسی لئے ان تمام کے نزدیک پاکستان کی فلاح و بہبود کا سب سے بڑا اور اہم سنگ میل اسلام آباد لاہور موٹروے ہے۔ یہ حکومت میں ہو یا اسکے باہر دانشوری کے میدان کے شہسوار، کنسلٹنٹ بن چکے ہوں یا معاشی ماہر انکا مشورہ وہی ہوتا ہے جو انہوں نے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے کتابچوں سے پڑھ کر اپنایا ہوتا ہے۔ نوے کی دہائی میں جب اسلام آباد لاہور موٹروے بن رہا تھا تو ان عظیم مشورہ سازوں کی خوشی دیدنی تھی۔ ظاہر ہے انکی سرکاری گاڑیوں نے اسی پر فراٹے بھرنا تھے۔ کیسی کیسی منطقیں تراشی گئیں اور آج بھی تراشی جا رہی ہیں۔ جب موٹروے بنے گا تو لوگ جلد ہسپتال جائیں گے، مارکیٹ تک غلہ جلدی پہنچے گا، بچے سکول جائیں گے۔ ترقی ہمارے دروازوں پر دستک دے گی۔ موٹر وے بن گیا، اسے بنے ہوئے آج بائیس سال ہوگئے لیکن اسکے دونوں جانب آج بھی ایک ہزار سال پرانی پھٹیچر زندگی نظر آتی ہے جس میں صحت کے ہسپتال ہیں نہ تعلیم کے اسکول، صاف پانی ہے نہ گیس اور بجلی۔ ہسپتال تو اسلام آباد اور لاہور میں ہیں، پہلے مریض رستے میں دم توڑ جاتا تھا، اب تیز رفتاری کی وجہ سے ہسپتال کے دروازے پر آکر مرتا ہے۔ سکول اور یونیورسٹیاں بنتی تو کوئی اس موٹروے کو علم کا ذریعہ بناتا وہ تو موٹروے بننے سے خودبخود اگنے نہیں لگتیں ، سبزیوں کے لیے کولڈ سٹوریج تھے نہیں تو وہ اپنی لوکل مارکیٹوں میں ہی گل سڑ گئیں، گائے بھینسوں اور بکریوں کے لیے اسپتال موجود نہ تھے،
کچھ بیمار ہو گئیں، کچھ نیم حکیموں کے پلے پڑیں اورپھر ایک دن جیسی تیسی تھیں قریبی بازار میں لا کر بیچ دی گئی۔ ان بائیس سالوں میں یہ موٹروے ویسی ہی صاف ستھری نظر آتی ہے جس پر ان منصوبہ ساز بیوروکریٹس کی گاڑیاں فراٹے بھرتی ہیں۔دونوں اطراف لگی باڑ ہے جسکے پیچھے قدیم بوسیدہ زندگی گزرتے انسان نظر آتے ہیں، اوپلے تھاپتے ہوئے، جانوروں کے ساتھ ایک ہی جوہڑ میں پانی پیتے ہوئے۔ لاہور سے اسلام آباد جانیوالے بیوروکریٹس، کاروباری حضرات، دیگر صاحبان حیثیت جو ذاتی گاڑی رکھتے ہیں یا نئی چلنے والی ایئر کنڈیشنڈ بسوں کا کرایہ برداشت کر سکتے ہیں ، وہ ان مفلوک الحال انسانوں کو اپنی گاڑیوں سے ایسے دیکھ رہے ہوتے ہیں جیسے افریقہ کے جنگلوں میں سفاری کے مسافر سیاح اچھلتے کودتے ہوئے ہرنوں، زرافوں اور چیتوں کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ جس وقت یہ بیوروکریٹس نواز شریف کو موٹر وے بنانے کے مشورے دے رہے تھے ، ٹھیک اسی دوران ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے اہم ترین منحرف رکن جان پرکنز جان پرکنز نے ان بکاؤ بیوروکریٹوں اور معاشی پنڈتوں کے راز اپنی کتاب ”کنویژن آف این اکنامک ہٹ میں” میں آشکار کیے تھے۔ اس نے لکھا تھا کہ جب ہم کسی ملک کی معیشت کو تباہ کر کے اسے اپنا غلام بنانا چاہتے ہیں ،اس پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں تو ہم وہاں کے بیوروکریٹس کو خریدتے ہیں اور انکے ذریعے سیاستدانوں کو انفراسٹرکچرل قرضوں کی افادیت منواتے ہیں، موٹروے بناو، ایئرپورٹ، میٹرو بناؤ۔ ہم انہیں صحت تعلیم اور صاف پانی کیلئے قرض نہیں دیتے کہ کہیں یہ اپنے پاؤں پر کھڑے نہ ہو جائیں۔ جب یہ بکاؤ بیوروکریٹس اور معاشی جادوگر قوم کو قرضوں میں جکڑ لیتے ہیں، بدترین معاشی حالات کی وجہ سے ملک قرض اتارنے کے قابل نہیں رہتا تو پھر ہم وہاں اپنے عقاب ہاکس بھیجتے ہیں، جو انکی معدنیات، فصلیں، کھیت کھلیان سبب قرض کے بدلے ہتھیا لیتے ہیں، جو حکمران ذرا اکڑتا ہے اسے بدترین سازش سے قتل کروا دیا جاتا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ میں نے ضمیر کے ہاتوں مجبور ہو کر یہ راز کھولا اسوقت کھولا جب میرے سامنے ایکواڈور کے صدر جیمی رولڈس اور پانامہ کے صدر عمر ٹوریجوس کو قتل کروا دیا گیا۔ کیونکہ یہ دونوں صدور میرے ہی منصوبوں کی راہ میں رکاوٹ بنے تھے اور میرے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے کرتا دھرتا افراد نے انہیں ٹھکانے لگوایا تھا۔ یہ وہی کتاب ہے جسے پڑھنے کا مشورہ مہاتیر محمد نے عمران خان کو دیا تھا۔ مہاتیر محمد کا یہی وہ سبق تھا جسکی بنیاد پر ملائیشیا نے ترقی کی اور گذشتہ کئی دنوں سے عمران خان نے کھل کر کہا کہ انفراسٹرکچر منصوبے قوموں کو غارت کرنے کے لیے قرض کی صورت دیے جاتے ہیں اور پھر ملک قرض کی دلدل میں ڈوب جاتا ہے جیسے میرا پاکستان آج قرض کی دلدل میں غرق ہے۔ لیکن کیا کریں میرے ملک کے یہ معاشی منصوبہ ساز، بیورو کریٹس یا پھر ریٹائرڈ بیورو کریٹس اور دانشور چاہتے ہیں کہ ملک بے شک بک جائے، قرض میں کنگال ہو جائے، انکی گاڑی اسلام آباد سے لاہور تین گھنٹے میں پہنچنی چاہیے۔ موٹر ویز زندہ باد۔