لاہور (ویب ڈیسک) قارئین! یہ اَنہونی تو نہیں لیکن باعث حیرت ضرور ہے… فیس بک والوں کو ایسی کون سی بات ناگوار گزری ہے کہ میری فیس بک ٹائم لائن سے حالیہ کالم بعنوان ”دوہری شہریت سے دوہری زوجیت تک‘‘ نہ صرف حذف کر ڈالا بلکہ اسے نفرت انگیز بھی قرار دیا ہے نامور کالم نگار آصف عفان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں … یعنی ؎ بات جس کا سارے فسانے میں ذکر نہ تھا ۔۔۔ وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے ۔۔سماجی رابطے اور آزادیٔ اظہار کی علامت فیس بُک کو ناجانے کالم کا کون سا پہلو نفرت انگیز اور اپنی پالیسی سے متصادم محسوس ہوا ہے… حالانکہ ہمارے مذہب سے لے کر عدلیہ… اور عدلیہ سے لے کر حساس اور معتبر اداروں تک کے بارے میں ہرزہ سرائی کے لئے اس کا کردار ہمیشہ مددگار ہی دِکھائی دیا ہے۔ قومی سلامتی کے تقاضوں سے متصادم سرگرمیوں کی نشاندہی کرنا اگر میرا جرم ہے تو مجھے اس کا اعتراف ہے… اور یہ جرم میں تا مرگ کرتا رہوں گا… ملکی سالمیت اور قواعد و ضوابط کا پرچار کرنا اگر نفرت انگیزی کے زمرے میں آتا ہے تو اس نفرت کا اظہار بھی جاری رہے گا… سوال یہ ہے کہ میرے کالم کو قابلِ اعتراض اور نفرت انگیز قرار کیوں دیا؟ اس کالم سے اسے کیا خطرات لاحق ہیں؟ اور فیس بُک کا اصل ایجنڈا اور پالیسی کیا ہے؟ یعنی اسلام دُشمن… ملک دُشمن مواد پر مبنی ہرزہ سرائی تو فیس بُک پر زور و شور سے ہو سکتی ہے‘ لیکن قومی سلامتی اور اس کے متعلق قوانین سے متصادم ”وارداتوں‘‘ کی نشاندہی کرنا نفرت انگیز اور پالیسی کے خلاف قرار دینا یقینا تعجب انگیز ہے۔ایک کالم نے ہی فیس بُک کے دوہرے معیار اور مذموم عزائم کا پول کھول کر رکھ دیا ہے۔ سماجی رابطے کا ایک مؤثر اور انتہائی تیز رفتار ذریعہ ہونے کی وجہ سے یہ اپنے مخصوص اہداف کے حصول کے میں کامیاب ہے۔ پاکستان کے اعلیٰ افسران کی دوہری شہریت اور غیر ملکی خواتین سے شادیوں میں نفرت انگیزی کا پہلو کہاں سے نکل آیا؟ اور ویسے بھی فیس بُک کو اعلیٰ افسران سے کیا ہمدردی اور ان کے ساتھ اس کی وابستگی ہو سکتی ہے؟ جبکہ اس کالم میں کسی افسر کا نام تو دور کی بات اشارتاً بھی کسی کا حوالہ نہیں دیا گیا تھا۔ یہ فیس بُک انتظامیہ کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس کالم پر احتجاج یا شکایت کنندہ سے پوچھتے کہ جس کالم میں تمہارا نام اور حوالہ ہی نہیں‘ تو پھر یہ کالم تمہارے خلاف کیسے ہو سکتا ہے؟ اعلیٰ سرکاری افسران کے ایک مخصوص ”بینیفشری گروپ‘‘ کی ملی بھگت اور پروپیگنڈا کے نتیجے میں فیس بُک نے مذکورہ کالم کو نفرت انگیز اور قابلِ اعتراض قرار دیا‘ جو یقینا جانبداری کا مظاہرہ ہے۔ فیس بُک کو اس کالم کی ایسے تکلیف اور پریشانی ہوئی‘ گویا پاکستان کے اعلیٰ افسران نہ ہو گئے ان کے ”داماد‘‘ ہو گئے اور ویسے بھی غیر ملکی خواتین سے شادیوں کے نتیجے میں ہمارے افسران ان تمام ممالک کے داماد ہی تو ہوئے جن کی خواتین سے وہ بیاہ رَچا چکے ہیں۔ دامادوں کی عزت اور خاطر داری تو ہر معاشرے میں اوّلین ترجیح ہوتی ہے۔ہمارے ہاں تو دامادوں کے ناز نخرے بھی خوب اٹھائے جاتے ہیں… داماد کو کوئی ٹیڑھی آنکھ سے دیکھے تو دیکھنے والی آنکھ داؤ پر لگ جاتی ہے… دامادوں کو سر پہ بٹھایا جاتا ہے… ان کی پسند ناپسند کا پورا خیال رکھا جاتا ہے… لگتا ہے کہ فیس بُک نے غیر ملکی خواتین سے شادی کرنے والے ان دامادوں کے دفاع کا ذمہ لے لیا ہے‘ جو وطنِ عزیز کی سالمیت اور قوانین سے بے نیاز اور بلا کے با اختیار ہیں۔ تعجب ہے… بھارت سمیت روسی، امریکی، برطانوی، فلپائنی، جاپانی، نائجیرین، کینیڈین، جرمن، لبنانی، چینی، ایرانی، ترکش، اٹالین، قازق، آئرش خواتین سے شادیاں کرنے والے اعلیٰ افسران کو کوئی پوچھنے والا نہیں… وہ ہر قانون اور ضابطے سے بالاتر ہیں۔ ان کی طاقت اور اثرورسوخ کا اندازہ لگانے کے لیے فیس بُک کا یہ اقدام ہی کافی ہے… یہ افسران پاکستان میں ہی نہیں بیرون ممالک میں بھی بااثر دکھائی دیتے ہیں۔ جہاں ان کے مفادات اور پوزیشن کو ٹھیس پہنچنے کا خطرہ لاحق ہوا‘ وہاں انہوں نے آزادیٔ اظہار کا گلا گھونٹ ڈالا… اس کالم کو نفرت انگیز قرار دے کر گویا فیس بُک نے ان کے دفاع کی ذمہ داری اٹھا لی ہے‘ تو یقینا مذکورہ افسران کے اقدامات اور مفادات کے تحفظ کا ایک نمونہ ہے۔فیس بُک کی طرف سے ان افسران سے یکجہتی نے معاملے کو مزید حساس اور سنگین بنا دیا ہے۔ فیس بُک کو کیا پڑی ہے کہ ان افسران کا دفاع کرے؟ اگر ان داماد افسران نے مذکورہ کالم پر احتجاج ریکارڈ بھی کرایا ہے تو یقینا یہ چور کی داڑھی میں تنکے کے مصداق ہے۔ آفرین ہے ہمارے حکمرانوں پر جو اس اہم اور حساس معاملے پر چشم پوشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ جن افسران کی وطن عزیز سے وابستگی ثانوی سے بھی کم ہو‘ ان کی بیویاں غیر ملکی ہوں اور وہ خود دہری شہریت کے حامل ہوں‘ ان سے کیا توقع کی جا سکتی ہے؟ وہ اس ملک کی تعمیر و ترقی میں کتنے سنجیدہ اور مخلص ہو سکتے ہیں؟مذکورہ کالم کے کچھ مندرجات قارئین کی یاد دہانی اور حوالے کے لیے پیش نظر ہیں۔ ”صلیبی جنگوں کی تاریخ پر اگر نظر ڈالیں تو دوہری شہریت اور دوہری زوجیت کا معاملہ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ صرف زمانہ اور طریقۂ واردارت بدلا ہے… باقی سب کچھ کم و بیش ویسا ہی چل رہا ہے۔ بد قسمتی سے وطن عزیز آج بھی ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرز پر چلایا جا رہا ہے اور لگتا ہے کہ یہ اعلیٰ افسران ”ڈیپوٹیشن‘‘ پر پاکستان آئے ہوئے ہیں اور اپنی باری لگا کر عرصۂ حکمرانی ختم ہونے پر واپس اپنے ”اصل‘‘ کی طرف لوٹ جائیں گے‘ اور اس وطنِ عزیز سے کمائی ہوئی حرام‘ حلال دولت پر بیرون ملک بیٹھ کر باقی زندگی آرام سے گزاریں گے۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا تو کچھ بھی نہیں ہے‘ ملک و ملت کے حساس ترین امور چلانے والے اہم ترین عہدوں پر تعینات افسران ہی جب ”بدیسی‘‘ ہوں… ان کی تمام تر وابستگیاں پردیسیوں اور فرنگیوں سے ہوں… تو اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے‘‘۔ غضب خدا کا‘ دوہری شہریت ہو‘ غیر ملکی سے شادی ہو یا بیرون ممالک میں مستقبل سکونت کا معاملہ ہو… نہ ریاست نظر آتی ہے‘ نہ ریاست کا کوئی قانون حرکت میں آتا ہے… یہ کیسا ملک ہے؟ قومی سلامتی کے تقاضوں اور اس کے متعلقہ قوانین نا جانے کس سرد خانے میں رکھوا کر بھول گئے ہیں؟ دوسری طرف ملکی سلامتی کے حوالے سے انتہائی حساس اور ذمہ دار اداروں کے اعلیٰ حکام ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان کے بجائے پہلے ہی بیرون ممالک سکونت اختیار کیے ہوئے ہیں لیکن کسی حکمران کی جرأت اور مجال نہیں کہ اس حساس اور فوری توجہ طلب معاملہ کا نوٹس لے سکے جبکہ اس حوالے سے قوانین اور احتیاطیں ایس او پی کا حصہ ہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان پہلے ہی اس اہم اور حساس معاملے پر فیصلہ سنا چکی ہے۔ فیصلے کے مطابق کوئی سرکاری ملازم مجاز اتھارٹی کی پیشگی منظوری کے بغیر کسی غیر ملکی خاتون سے شادی نہیں کر سکتا… ایسا کرنے والا ”مس کنڈکٹ‘‘ کا مرتکب تصور کیا جائے گا… جس پر مجاز اتھارٹی کارروائی کرنے کی پابند ہے۔ لیکن یہاں تو لگتا ہے کہ کارروائی کی پابند اتھارٹی خود کسی کی پابند ہو چکی ہے اور وہ کسی قسم کی کارروائی کرنے سے قاصر ہے جبکہ اس کارِ بد میں ہماری سیاسی اشرافیہ بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ وہ بھی زمانۂ اقتدار میں آ جاتے ہیں اور اقتدار جاتے ہی خود بھی چلے جاتے ہیں‘ جبکہ اکثر کے اہل و عیال بھی پاکستان کا رُخ کبھی کبھار ہی کرتے ہیں۔ آخر میں عرض کرتا چلوں کہ مذکورہ کالم پر واویلا کرنے والے اور فیس بُک انتظامیہ کو اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے والے ”مہا کلاکار‘‘ اعلیٰ سرکاری افسران کی گھبراہٹ اور بوکھلاہٹ کی وجہ تو سمجھ میں آتی ہے‘ لیکن فیس بُک انتظامیہ کو احتجاج کرنے والے افسران کا نام کالم میں کہاں نظر آ گیا؟ اور جب کسی کا نام ہی نہیں تو کیسی شکایت… اور کیسا احتجاج؟ اس تناظر میں فیس بُک کا یہ اقدام جانبداری اور ملی بھگت کے سوا کچھ نہیں۔ یعنی… چور مچائے شور۔