counter easy hit

جج ارشد ملک کے بیان حلفی کے وہ حصے جن سے آپ ابھی لاعلم ہونگے

The part of the judge's statement, which you will now be absent

لاہور (ویب ڈیسک) گیارہ جولائی کے دن ہی جج ارشد ملک نے اپنا حلفیہ بیان پیش کیا جس میں انہوں نے اپنے دعوے کے حق میں تفصیلی حقائق بیان کئے۔ اس حلفیہ بیان میں جسے اب اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر نواز شریف کی اپیل کا حصہ بنا دیا گیا ہے انہوں نے نامور کالم نگار سعد رسول اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ اپنی پس پردہ کہانی کے نئے کرداروں سے بھی متعارف کرایا ہے۔ ان کے موقف کی مختصر تفصیل کچھ اس طرح ہے۔ فروری 2018ء میں جج ارشد ملک کی احتساب عدالت میں تقرری کے فوراً بعد مہر جیلانی اور ناصر جنجوعہ نے ان سے رابطہ کیا۔ ناصر جنجوعہ نے دعویٰ کیا کہ اس نے مسلم لیگ نون کی حکومت کی ایک با اثر شخصیت کے ذریعے انہیں احتساب عدالت کا جج لگوایا ہے ۔ اس کے کچھ عرصے بعد اگست 2018ء میں (نواز شریف کے وکیل کی درخواست پر) فلیگ شپ ریفرنس اور ہل میٹل ریفرنس جج ارشد ملک کی عدالت میں ٹرانسفر کر دیئے گئے۔ جج صاحب کے دعوے کے مطابق جب ان مقدمات کی سماعت ابھی ہو رہی تھی تو نواز شریف کے قریبی ساتھیوں نے متعدد بار اپروچ کر کے ترغیبات اور دھمکیوں کے ذریعے انہیں اور دوسرے ملزم کو مقدمے سے بری کرنے کے لئے کہا۔ ارشد ملک کا دعویٰ ہے کہ مہر جیلانی اور ناصر جنجوعہ انہیں ایک سماجی تقریب میں ملے اور انہیں وارننگ دی کہ نواز شریف کے خلاف فیصلہ کرنے کی صورت میں انہیں بہت نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کے بعد جب ابھی دلائل جاری ہی تھے کہ ناصر جنجوعہ نے نواز شریف کی طرف سے انہیں مالی پیشکش کی اور اس موقع پر ناصر جنجوعہ نے دعویٰ کیا کہ اس کے پاس یورو کی شکل میں دس کروڑ روپے موجود ہیں جن میں سے دو کروڑ روپے کے مساوی یوروز اس وقت بھی باہر کھڑی اس کی گاڑی میں پڑے ہیں۔ جج صاحب کے دعوے کے مطابق انہوں نے رشوت کی اس پیشکش کو ٹھکرا دیا تو نواز شریف کی بریت کے لئے ناصر بٹ نے انہیں مل کر جسمانی نقصان پہنچانے کی دھمکیاں دیں۔ جج ارشد ملک کے حلفیہ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ دسمبر 2018ء کے آخری ہفتے میں مقدمے کا فیصلہ سنائے جانے کے بعد بھی ناصر بٹ اور خرم یوسف انہیں ملے‘ اور پوچھا کہ کیا ناصر جنجوعہ نے انہیں ملتان والی ویڈیو دکھائی ہے۔ اس کے کچھ عرصے بعد میاں طارق اور اس کا بیٹا ان کے پاس آئے اور انہیں ان کی خفیہ اور ساز باز سے ریکارڈ کی ہوئی غیر اخلاقی سرگرمیوں پر مبنی ویڈیو دکھائی۔ اس ویڈیو کے ذریعے بلیک میل کرتے ہوئے ناصر جنجوعہ نواز شریف کی تسلی کے لئے جج ارشد ملک کا ”ایک آڈیو پیغام‘‘ ریکارڈ کرنا چاہتے تھے‘ جس میں وہ کہہ رہے ہوں کہ میں نے کسی ثبوت اور شہادت کے بغیر انتہائی دبائو میں نواز شریف کو سزا سنائی ہے۔ حلفیہ بیان کے مطابق اس ویڈیو کے ذریعے بلیک میل کرتے ہوئے ناصر بٹ نے انہیں اپنے ہمراہ جاتی امرا جانے کا مطالبہ کر دیا؛ چنانچہ 06-04-2019 کو جج ارشد ملک جاتی امرا گئے جہاں نواز شریف نے خود ان کا استقبال کیا۔ جب جج ارشد ملک نے ثبوت کی بنا پر اپنے فیصلے کا دفاع کرنے کی کوشش کی تو نواز شریف نے اس پر سخت ناگواری کا اظہار کیا۔ اس اظہار ناراضی کے ازالے کے لئے ناصر بٹ نے مطالبہ کیا کہ وہ اس سزا کے خلاف اپیل کی تیاری میں ان کی مدد کریں۔ یہی وہ ملاقات اور امداد تھی جس کا مواد مریم نواز کی پریس کانفرنس میں پیش کیا گیا تھا۔ اس حلفیہ بیان میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ جج ارشد ملک 28-05-2019 کو عمرہ کی ادائیگی کے لئے گئے۔ مدینہ میں قیام کے دوران یکم جون کو ناصر بٹ انہیں وہاں ملے اور مجبور کر کے انہیں حسین نواز سے ملانے کے لئے لے گئے۔ حسین نواز بڑے جارحانہ موڈ میں تھے اور انہوں نے انہیں پچاس کروڑ روپے کی پیشکش کی اور کہا کہ اس کے بدلے میں انہیں اس بنا پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا ہو گا کہ ”وہ بغیر کسی ثبوت اور شہادت کے دبائو میں آ کر نواز شریف کو سزا سنانے پر اپنے ضمیر پر مزید بوجھ برداشت نہیں کر سکتے‘‘۔ اپنے حلفیہ بیان میں جج ارشد ملک دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے یہ پیش کش ٹھکرا دی اور جب ناصر بٹ اور خرم یوسف نے یہی پیشکش دہرائی تو بھی اسے مسترد کر دیا۔ 06-07-2019 کو مریم نواز کی پریس کانفرنس اسی پیشکش کو ٹھکرائے جانے کے بعد کی گئی ہے۔ اس امر سے قطع نظر کہ کوئی مریم نواز کے ویڈیو کے بارے میں دعوے یا جج ارشد ملک کے حلفیہ بیان میں اپنائے گئے موقف کو کس طرح دیکھتا ہے اس حقیقت سے انکار کسی طور ممکن نہیں ہے کہ جج ارشد ملک کا طرز عمل بالکل بلا جواز ہے۔ خاص طور پر ایسے مقدمے میں جسے سپریم کورٹ کے معزز جج جسٹس اعجازالاحسن براہ راست مانیٹر کر رہے تھے۔ کچھ بھی ہو ان کے اپنے حلفیہ بیان کے مطابق ان کے پاس ناصر بٹ، ناصر جنجوعہ، مہر جیلانی، خرم یوسف، حسین نواز اور نواز شریف سے ملنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ اس بات کا بھی کوئی جواز نظر نہیں آتا کہ جج ارشد ملک نے ان تمام واقعات سے مانیٹرنگ کرنے والے معزز جج صاحب کو آگا ہ کیوں نہیں کیا؟ جس وقت وہ ان ملاقاتوں اور گفت و شنید میں مصروف تھے ان کے پاس اسی عرصے میں ان مقدمات کی سماعت کا کوئی جواز نہیں تھا۔ دبائو کے تحت ہی سہی ان کے پاس اپنے فیصلے کے خلاف اپیل کی تیاری میں مدد کرنے یا ڈکٹیٹ کرانے کا بھی کوئی جواز نہیں تھا۔ ان گھٹیا نوعیت کے واقعات کے متاثرہ فریق ہونے کے بعد ان کے پاس کام کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔کئی حوالوں سے جج ارشد ملک کی کہانی نواز شریف کی کہانی سے مختلف نہیں ہے۔ وہ اس طرح کہ اگر جج صاحب کے بیان کردہ تمام حقائق کو درست تسلیم کر لیا جائے تو بھی جج صاحب نے اپنے حلف سے روگردانی کی ہے، شائستگی کی تمام حدود عبور کی ہیں، ہمارے نظام عدل کا مذاق اڑایا ہے ۔ بہرحال جج صاحب کا بیانیہ کسی بھی صورت قانون اور فطری انصاف کے تقاضوں پر پورا نہیں اترتا۔ جج ارشد ملک کو کام سے روک دینا تو کم سے کم اقدام ہے۔ انہوں نے اس مقدمے اور ملکی عدلیہ کے وقار کو جتنا نقصان پہنچا دیا ہے محض عہدے سے ہٹانے سے اس کی تلافی ممکن نہیں ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ نواز شریف اور ان کی فیملی کے ساتھ کیا ہوتا ہے (ان کے خلاف مقدمے کا فیصلہ میرٹ پر ہی ہو گا) جج ارشد ملک کو ان تمام کے لئے ایک مثال بنا دینا چاہئے جو ہمارے نظام عدل کے کار پردازوںکو ڈرانے دھمکانے یا بلیک میل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ صرف اسی صورت نواز شریف کو ملنے والی سزا اور ہمارے مجموعی نظام عدل کی ساکھ برقرار رہ سکتی ہے۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website