.تحریر ؛(اصغر علی مبارک ) نجف اشرف سے کربلائے معلی کے پیدل سفرکو عربی زبان کے عرف عام میں”مَشِی” کہا جاتا ہے۔ نجف، کربلا شاہراہ پر زائرینِ حسینی کا ایک سیلاب رواں دواں نظر آتا ھے ۔ نجف سے کربلا 80 کلومیٹر سے زائد فاصلہ پیدل طے کرنے کیلئے زائرینِ خاص جذبے کے ساتھکربلائے معلی کی طرف بڑھتے نظر آتے ھیں میڈیا رپورٹس کے مطابق گزشتہ سال بیس ملین سے زیادہ زائرین حضرت امام حسین علیہ السلام کے چہلم میں حاضر ہوئےکربلا کے مسافروں کے داستان کی تشہیر حضرت امام زین العابدین علیہ السلام اور حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے خطبوں سے ہوئی۔ آج حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے ماننے والوں کا فریضہ ہے کہ کربلا کے مسافروں کی داستان کا جگہ جگہ پرچار کریں۔ ہر عزادار کی یہ ذمہ داری ہے کہ کربلا کے مسافروں کی داستان آگے بڑھاے تاکہ مشرق و مغرب کے ہر زندہ ضمیر انسان کے عقل و قلب پر نقش ہو جائے۔ اور ھر قوم پکار اٹھے ”ہمارے ہیں امام حسین علیہ السلام . نجف اشرف سے کربلائے معلی کے دوران زائرین اپنے مولیٰ و آقا کی خدمت میں دکھوں، پریشانیوں اور مصیبتوں کا حال سناتے ہیں اور اُنہیں بارگاہ الٰہی میں اپنا شفیع بناتے ہیں۔ بعض زائرین امیر المؤمنین علیہ السلام کی ضریح کے پاس کربلا کے میدان میں عون و محمد جیسے بیٹے ، علی اصغر جیسے شیرخوار، علی اکبر و قاسم جیسے بھتیجے اور عباسؑ علمدار اور حضرت امام حسین علیہ السلام جیسے بھائی کی قربانی کا حالِ بیان کرتے نظر آتے ھیں ۔ زائرین کو حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے اس قلق کا شدّت سے احساس ستاتا ھے ۔ اور وہ بی بی زینب سلام اللہ علیہا کا ترجمان بن کربارگاہ میں بی بی کا حالِ دل اپنے الفاظ میں بیان کرتا ھے ۔۔”بابا! مجھے رسن بستہ، بازاروں اور درباروں میں لے جایا گیا!”حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی مصیبت، کربلا کے تمام مصائب سے بڑی مصیبت تھی۔ اِس مصیبت پر جس قدر گریہ کیا جائے کم ہے۔ ایک بیٹی اپنے بابا کی خدمت میں اس سے بڑی کس مصیبت کا حال سناتی! حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی چادر لوٹ لی گئی تھی اور آپ کو نامحرموں کے ہجوم میں کوفہ و شام کے بازاروں اور درباروں میں گھمایا گیا! درحقیقت، یہ مصیبت حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی نہیں، عالمِ اسلام کی سب سے بڑی مصیبت ہے۔ اس لیے کہ سن 61 ہجری میں بھی لوگوں کا خیال یہ تھا کہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا، علیؑ کی بیٹی ہے اور لوگ آج بھی یہی سمجھتے ہیں کہ زینبؑ، علیؑ کی بیٹی تھی۔ لیکن کوفہ کے دربار میں حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے قیامت تک کے لیے اِس سوچ پر خطِ بطلان کھینچ دیا تھا۔حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے اپنے خطبہ کی ابتداء میں فرمایا تھا: الحمد للہ و الصلاۃ علی ابی محمد! یعنی: “سب ثنائیں اللہ تعالی کے ساتھ مخصوص ہیں اور درود و سلام ہو میرے بابا محمد (ﷺ)پر !” حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے اپنے خطبہ میں واضح کر دیا کہ میں علی کی بیٹی ہونے سے پہلے محمد ﷺکی بیٹی ہوں۔ لہذا جس مسلمان کا حضرت محمد ﷺکے ساتھ کوئی رشتہ ناطہ ہے، اُس کا قیامت تک یزید اور یزیدی طرزِ تفکر کے ساتھ کوئی رشتہ ناطہ نہیں ہو سکتا۔ اور جسے ناموسِ رسالت کا کچھ پاس ہے، وہ وقت کے یزید سے نبی کی بیٹی کی چادر کا انتقام لیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے جہاں عام مسلمانوں کی یہ غلط فہمی ہمیشہ ہمیشہ کےلیے دور کر دی کہ علی کی بیٹی ہونے اور نبی کی بیٹی ہونے میں کوئی فرق نہیں، وہاں آپ نے یزید ملعون کی ایک غلط فہمی بھی ہمیشہ ہمیشہ کےلیے دور کر دی۔ یزید کا خیال تھا کہ وہ حضرت امام حسین علیہ السلام کو شہید کر کے حضرت علی علیہ السلام کا ذکر اور اہل بیت اطہار علیہم السلام کی یاد تک مٹا دے گا۔ لیکن حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے دربارِ شام میں دوٹوک الفاظ میں یزید کو بتا دیا کہ : ” کِدْ کَیْدَکَ وَ اجْھَد جُھْدَکَ فَوَ اللہِ الَّذِیْ شَرَّفَنَا بِالوَحْیِ وَالکِتَابِ وَ النُبُوَّۃِ وَ الاِنْتِخَابِ لَاُتدْرِکُ اَمَدَنَا وَ لَاتَبْلُغُ غَایَتَناَ وَ لَاتَمْحُو ذِکرَْنَا” یعنی: “(ائے یزید!) تو ہر حربہ اپنا لے اور اپنا پورا زور لگا لے! اُس اللہ کی قسم! جس نے ہمیں وحی، کتاب، نبوّت اور برگزیدہ ہونے کا اعزاز بخشا ہے، نہ تو ہمارے جیسی شان و شوکت حاصل کر سکتا ہے، نہ ہماری انتہاء کو پہنچ سکتا ہے اور نہ ہی ہمارا ذکر مٹا سکتا ہے۔” نجف تا کربلا پیاده روی کے راستے پر زائروں کی راہنمائی اور آسانی کے لئے سڑک کے کنارے پر واقع سٹریٹ لائٹ کے کهمبوں پر تختیوں پر نمبر لکھے گئے ہیں ان کهمبوں کو ” عمود ” کہا جاتا ہے چہلم کے موقع پر عراق اور اہل نجف میں مدینہ منوّرہ میں باندھے جانے والے عقدِ اخوت کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ چہلم کے موقع پر کسی نجفی کا گھر اُس کا شخصی گھر نہیں رہتا۔ کم و بیش ہر نجفی سال بھر اِن ایّام کے انتظار میں رہتا ہے اور مولٰی علی مرتضیٰ اور مظلومِ کربلا کے زائرین کی مہمان نوازی کی تیاریاں کرتا رہتا ہے۔ لہذا چہلم کے ایام میں جب تک نجفیوں کے گھروں میں تل دھرنے کی گنجائش موجود ہوتی ہے، اُن کا دروازہ زائرین پر کھلا رہتا ہے۔ اور جب سب مکان بھر جاتے ہیں تو نجف کے گلی کوچے اور سڑکیں مسکن بن جاتی ہیں۔درحقیقت، یہ ایمانی اخوت اور ایثار و فداکاری عشق کی سلطنت کے باشندوں کی تیسری بڑی شناخت ہے۔ جس میں یہ علامت نہ پائی جاتی وہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی نگری کا باشندہ نہیں کہلا سکتا۔ چہلم کے موقع پر امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے حرم کے سنہری گنبد کو دور سے دیکھ لینا اور دُور سے آپؑ کا زیارتنامہ پڑھ لینا کافی ہوتا ہے۔نجف اشرف کوئی اتنا بڑا شہر نہیں ہے۔ اس چھوٹے سے شہر میں لگ بھگ چالیس پچاس لاکھ زائرین کا بیک وقت سما جانا معجزے سے کم نہیں،حضرت امام حسین علیہ السلام کی معرفت میں کم از کم اتنا جان لینا بہت ضروری ہے کہ آپؑ وقت کی وہ گونجتی آواز ہیں جو ہر جابر و ظالم حکمران اور استعماری اور طاغوتی نظام کو للکار رہی ہے۔ اور آپ کا چہلم منانے وہی نکلیں جو آپؑ کے مکتب پر مکمل یقین رکھتے ہوں اور آپؑ کی صدائے استغاثہ پر لبیک کہہ سکتے ہوں،حضرت امام حسینؑ حق کی خاطر خاک و خون میں غلطاں ہو کر “لا الہ الاّ اللہ” کی محکم بنیاد بن گئے ۔ آپؑ نے جب یزید کی بیعت کے انکار کی تلوار نیام سے نکالی تو قیامت تک کے اربابِ باطل کی رگوں کا سارا خون بہا دیا۔ آپ نے کربلا کے صحرا پر ہمیشہ کے لیے “فقط اللہ کی بندگی” کا نقش گاڑھ دیا اور یوں ہماری نجات کی سطر کا اصل عنوان رقم کر دیا۔ نفسا نفسی کے دور میں امام وقت (عج) کو پرسہ دینے کے لیے دنیا بھر سے مومنین پیدل، پابرہنہ سوئے کربلاجاتے ہیں۔جن کی تعداد کروڑں میں ہے۔ جو داعش، طالبان اور دیگر گروہوں کی دھمکیوں اور مشکلات کے باوجود دل عشق حسین (ع) سے لبریز اور آنکھیں غمِ حسین (ع) میں پُرنم امام وقت (عج) سے کئے ہوئے عہد کو نبھانے اور دل میں “لیتنا کنا معکم” کی آروز لے کر سیدالشہداء ابی عبداللہ الحسین (ع) کے استغاثے پر لبیک کہتے ہوئے سوئے کربلا قدم بڑھا رہے ہیں۔ پیدل چل چل کر انکے پاؤں زخمی ہو جاتے ہیں، لیکن انہیں اپنی جان کی کوئی فکر نہیں بس انہیں وہ منظر رلا رہا ہے جب اہل حرم کا قافلہ در بہ در پھرانے کے بعد اربعین کو واپس کربلا پہنچا تھا تو ایک کہرام برپا ہو گیا ،آج ہر جگہ ،نگر نگر ، گلی گلی، قریہ قریہ میں لبیک یا حسین (ع)، لبیک یا حسین (ع) کی صدائیں گونج رہی ہیں۔ اربعین امام حسین علیہ السلام کے زائرین کی خدمت کرنے والے عراقی عوام کی محبت اور بلند ہمتی کو دیکھ کر اربعین حسینی کے زائرین رشک کرتے ہوے یہ آرزو کر تے نظر آتے ہیں کہ کاش ہم بھی اربعین حسینی کے زائرین کے خدمت گار ہوتے-