کرۂ ارض پر ہزاروں سال سے رہنے والی اشرف المخلوقات کا مسئلہ یہ ہے کہ اتنے طویل عرصے کے بعد بھی اس نے خلوص محبت اور یکجہتی کے ساتھ رہنا نہیں سیکھا کیونکہ وہ مختلف حوالوں سے تقسیم کا شکار ہے، جن میں سے ایک سب سے خطرناک مذہبی تقسیم ہے۔
اگر مذہبی یکجہتی اور رواداری کے حوالے سے کوئی خبر دیکھنے کو ملتی ہے تو ہماری خوشی کی کوئی انتہا نہیں رہتی۔ آج ہم نے اخبارات میں اس حوالے سے جب ایک انتہائی حوصلہ افزا خبر دیکھی تو ہماری مسرت کی کوئی انتہا نہیں رہی۔
خبر کے مطابق بھارت کی ریاست بنگال کے شہر کھارگ پور میں ہندو مسلم بھائی چارے کی ایک ایسی مثال دیکھنے کو ملی جو برصغیر میں کسی نے کبھی دیکھی نہ سنی اور نہ ہی اس حوالے سے ایسی توقع کی جا سکتی ہے۔ وہ خبر یہ ہے کہ اس شہر کے رہنے والوں نے ایک 35 سالہ ہندو شہری ابیر بھونیہ کے علاج کے لیے اپنا روایتی محرم کا جلوس منسوخ کر دیا اور اس جلوس کے لیے مختص 12 لاکھ روپے ابیر کو دے دیے جو کینسر کے موذی مرض میں مبتلا تھا۔
کھارگ پور پورتن بازار میں روایتی طور پر محرم کا جلوس آرگنائز کرنے والی سماج سانگھا کلب کے سیکریٹری امجد خان نے فجر کی نماز کے بعد مسجد میں ایک میٹنگ بلائی جس میں فیصلہ کیا گیا کہ محرم کا جلوس تو ہر سال نکالا ہی جاتا ہے لیکن اس سال جلوس سے بھی زیادہ اہم بات کینسر کے مریض ابیر بھونیہ کا علاج کرانا ہے۔ چنانچہ مسلمانوں کے مشترکہ فیصلے کے تحت محرم کے جلوس کے لیے اکٹھا کی گئی 50 ہزار روپے کی رقم ابیر بھونیہ کو دے دی گئی۔
ابیر بھونیہ نے رقم لینے کے بعد کہاکہ مجھے نہیں معلوم کہ مجھے کینسر کے مرض سے نجات ملے گی یا نہیں لیکن مسلمان بھائیوں کے اس جذبے نے مجھے جینے کا حوصلہ ضرور بخشا ہے۔ محرم کمیٹی کے ایک رکن محمد بلال نے کہاکہ ضرورت مند لوگوں کی مدد کرناہی اسوہ حسینی ہے کیونکہ اس کام سے خدا خوش ہوتا ہے۔ ابیر ہندو ہے لیکن پہلے وہ ایک انسان ہے۔
پاکستان ایک مسلم ملک ہے جہاں ہر سال اربوں روپے مختلف مذہبی تقریبات پر خرچ ہوجاتے ہیں لیکن ہر مذہبی تقریب یا ایام مسلمانوں کے لیے خوف و دہشت بھی ساتھ لاتا ہے، ہر مسلمان دعا گو رہتا ہے کہ دن خیر خیریت سے گزر جائے، یکم محرم ہی سے پولیس، دوسرے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو الرٹ کردیاجاتا ہے۔ اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی جاتی ہے، مسجدوں، امام بارگاہوں کے باہر پولیس اور رینجرز کے سخت پہرے لگادیے جاتے ہیں، 9اور 10 محرم کو موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پر پابندی لگادی جاتی ہے، حساس علاقوں میں پولیس اور رینجرز کا گشت بڑھادیاجاتا ہے اور دو دن موبائل سروس بند کردی جاتی ہے۔
یہ صورتحال صرف محرم ہی میں نہیں رہتی بلکہ دیگر بڑی مذہبی تقاریب میں بھی اسی طرح کی احتیاطی تدابیر اختیار کی جاتی ہیں اور یہ سب اس مسلم ملک میں ہوتا ہے جسے ہم فخر سے اسلام کا قلعہ کہتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس قسم کی احتیاطی تدابیر غیر مسلموں کے خوف سے کی جاتی ہیں یا مسلمان، مسلمانوں ہی سے خوف زدہ رہتے ہیں۔
صورتحال یہ ہے کہ ہم اپنے وطن میں بے وطنوں کی طرح خوف و ہراس کا شکار رہتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ حکومت ان موقعوں پر خون خرابوں سے بچنے کے لیے غیر معمولی حد تک احتیاطی اقدامات کرتی ہے۔ لیکن فساد فی سبیل اﷲ کے خوف سے پاکستانی عوام نجات نہیں حاصل کرسکتے۔ دنیا میں 57 مسلم ممالک موجود ہیں جہاں محرم کے دوران نہ عوام اس قسم کے خوف و ہراس کا شکار رہتے ہیں نہ ہماری طرح جنگی پیمانے پر حفاظتی اقدامات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
بھارت ایک ہمسایہ اور ہندو اکثریتی ملک ہے، جہاں 22 کروڑ، یعنی ہماری کل آبادی سے زیادہ مسلمان رہتے ہیں۔ ہندو مذہب میں بھی انتہا پسند طبقات رہتے ہیں اور مذہبی تقاریب کے موقعوں پر حقیقی طور پر فسادات کا خطرہ رہتا ہے، لیکن عموماً محرم جیسا حساس مہینہ خیریت سے گزرجاتا ہے اور اس ہندو ریاست میں وہ اقدامات نہیں کیے جاتے جو پاکستان میں کیے جاتے ہیں۔ احتیاط کا عالم یہ ہوتا ہے کہ ملک بھر میں دو تین دن موبائل سروس تک بند کردی جاتی ہے اور عوام ہنگامی صورتحال میں ایک دوسرے سے کٹے رہتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟
جنگی پیمانے پر احتیاطی تدابیر اختیار کرنا بلاشبہ حکومت کا ایک بہتر اقدام ہے، لیکن کیا ہم ہر سال اسی قسم کی صورتحال کا سامنا کرتے رہیںگے؟ اس حوالے سے جن اقدامات کی ضرورت ہے ان میں فرقہ وارانہ یکجہتی کے لیے مسلسل تمام مسالک کے اکابرین کے درمیان رابطے اور غلط فہمیوں کا ازالہ ضروری ہے۔ اس حوالے سے سب سے بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارے محترم علما کرام فرقہ وارانہ یکجہتی کے لیے خلوص نیت سے وہ اقدامات، وہ کوششیں نہیں کرتے اور جو فرقہ ورانہ ذہنیت پھیلانے والی ایسی تقاریر ایسا لٹریچر عوام میں پھیلایا جاتا ہے جو آگ پر تیل کا کام کرتا ہے۔
میں حیران ہوں کہ بھارت کی ریاست بنگال کے شہر کھارگ پور میں رہنے والے مسلمانوں نے بہترین مثال قائم کی ہے۔
ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم دنیا کی سب سے برتر قوم ہیں اور ہمارا مذہب دنیا کے تمام مذاہب سے اعلیٰ ہے۔ کیا ہماری مذہبی رسومات، ہماری فرقہ وارانہ ذہنیت، ہمارے دعوؤں پر پوری اترتی ہے؟ یہ ایسا سوال ہے جس پر ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔