لاہور (ویب ڈیسک) اسلام آباد کے کیفے میں عبدالرحمن کی پوری کہانی سن کر میں کافی دیر سے خاموش بیٹھا تھا ۔ سوچ رہا تھا‘ اسے کیا تسلی دوں جسے ڈاکٹرز نے صاف منہ پر کہہ دیا تھا کہ اس کے پاس صرف دو ماہ بچے ہیں۔ عبدالرحمن کے چہرے کو میں نے پڑھنے کی کوشش کی۔ نامور کالم نگار رؤف کلاسرا اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ایک ایسے انسان کے جذبات کو‘ جسے ڈاکٹر جواب دے چکے تھے۔میں خود ان نفسیاتی اور جذباتی تکلیفوں سے گزر چکا تھا ‘لہٰذا مجھے اندازہ تھا کہ ایک فیملی پر ان حالات میں کیا گزرتی ہے۔ عبدالرحمن مجھ سے میری کتابوں اور میرے کالمز کی باتیں کرتا رہا۔ مجھے میرے کالموں میں سے بتاتا رہا کہ کب میں نے ان کالموں میں کس کتاب اور فلم کا حوالہ دیا تھا۔میں اس کی میرے بارے باتوں میں دلچسپی نہیں لے رہا تھا۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اس نوجوان کے لیے کیا کچھ کیا جاسکتا ہے۔ ابھی ماں کی قبر کی مٹی نہیں سوکھی تھی کہ نوجوان بیٹا ایسی بیماری کا سامنا کررہا تھا جس کا بقول ڈاکٹروں کے ان کے پاس علاج نہ تھا۔ تقدیر بھی کیا کیا مذاق کرتی ہے۔میں نے کہا: آپ ایک کام کریں‘میں تو ایک ہی فرشتے کو جانتا ہوں‘ اور کچھ نہیں تو اسے اپنی رپورٹس بھیج کرمشورہ کر لو۔ میں نے اسے ڈاکٹر عاصم صہبائی کا فون نمبر دیا‘ اور کہا کہ اس سے امریکہ میں میرا حوالہ دے کر بات کر لو۔ وہ تمہیں گائیڈ کریں گے کہ کیا ہوسکتا ہے۔ عبدالرحمن میرے ساتھ کافی دیر بیٹھا رہا۔ وہ باتیں کرتا رہا ‘ میں خاموش اسے سنتا رہا۔ بہت کم نوجوان ہوں گے جنہیں کتاب سے اس قدر جنون کی حد تک پیار ہواور اتنی کتابیں پڑھ رکھی ہوں گی جتنی عبدالرحمن نے پڑھ رکھی تھیں۔ میں نے زندگی میں بہت کم بہادر لوگ دیکھے ہیں اور عبدالرحمن ان میں سے ایک تھا۔ مجھ سے ملاقات کے ایک ماہ بعد اپریل میں ایک دن مجھے عبدالرحمن کا میسج ملا‘ جس نے مجھے دہلا کر رکھ دیا ۔عبدالرحمن کو اس کا دوست موٹر سائیکل پر کیموتھراپی کرانے لے جارہا تھا۔ راستے میں قبرستان کے قریب ایک پولیس ناکے پر سپاہی نے روکا اور اے آئی ایس کے پاس لے گیا۔ عبدالرحمن نے فون کر کے والد کو بتایا کہ پولیس نے انہیں روک لیا ہے ۔ اس پر اے ایس آئی نے عبدالرحمن کو گالیاں دینی شروع کر دیں کہ گھر فون کیوں کیا۔ گریبان سے پکڑ کر دھمکیاں دیں کہ تمہیں تھانے لے کر ٹھیک کرتا ہوں اور پھر گربیان پھاڑ دیا اور موٹر سائیکل تھانے لے جا کر بند کر دی۔ یہ سب کچھ ایس ایچ او کی موجودگی میں ہوا۔ عبدالرحمن نے لکھا تھا: پنجاب کی پولیس کے اہلکاروں نے عام آدمی سے بات کرنے کا یہ طریقہ اپنا لیا ہے‘ اور بعد میںکہتے ہیں کہ ہم آپ کی حفاظت کیلئے ہیں۔ ایسے معاشرے کا حصہ ہونے پر افسوس ہوتا ہے۔ آج پہلی دفعہ پولیس سے واسطہ پڑا اور مجھے رونا آرہا ہے۔ مجھے اس معاشرے میں باعزت رہنے کا کوئی حق نہیں ہے؟میں کافی دیر تک افسردہ اس میسج کو دیکھتا رہا ۔ ایک ایسے نوجوان کے ساتھ پولیس نے گالی گلوچ کی اور اس کا گربیان پھاڑ دیا‘ جسے ڈاکٹرز نے جواب دے دیا تھا کہ وہ چند ماہ سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکے گا۔ اب زندگی نے جاتے جاتے اس کے ساتھ یہ سلوک کیا کہ وہ احساسِ ذلت سے سو نہیں سکتا۔ میں نے عبدالرحمن کو تسلی دی اور کہا: کچھ کرتے ہیں اور یہ معاملہ اپنے ٹی وی شو میں اٹھاتے ہیں۔ اس سے پہلے میں نے ٹویٹ کر دیا کہ کینسر کے ایک مریض کے ساتھ اوکاڑہ پولیس نے کیا حشر کیا۔ اس پر مجھے ڈی پی او اوکاڑہ حسن اسد علوی کے دفتر سے فون آیا کہ اس ٹویٹ پر ایکشن لیا گیا اور ان پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے۔ اے ایس آئی کو فوراً معطل کر دیا گیا۔ ڈی پی او حسن اسد علوی کا شکریہ‘ انہوں نے ایک کینسر مریض کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر نوٹس لیا اور شام تک پولیس اہلکار عبدالرحمن کے گھر پہنچ گئے کہ انہیں معاف کردیں۔ ایک دن عبدالرحمن نے مجھے اپنی تصویر بھیجی‘ جس میں اس کے بال کیمو کے بعد جھڑ گئے تھے۔ میں نے اس کا حوصلہ بڑھانے کے لیے کہا :اس نئی شکل میں تم ہیرو لگ رہے ہو۔ رحمن کا جواب آیا: سر وہ تو ٹھیک ہے ‘لیکن دو دن سے میرے والد سو نہیں پارہے ۔انہیں میرے سر کے بال گرتے دیکھ کر لگتا ہے میں کسی خطرناک بیماری کا شکار ہوں‘ لیکن انہیں نہیں بتا رہا۔ عبدالرحمن نے لکھا : وہ خود بھی بہت ڈسٹرب ہے اور اگر اس نے اپنی شیو کر لی تو پھر سب کو پتہ چل جائے گا اسے کینسر ہے۔ میں نہیں چاہتا میرے گھر اور میرے رشتہ داروں کو پتہ چلے کہ میں کینسر کا مریض ہوں۔ مجھے خطرہ ہے ان کا رویہ میری طرف بدل جائے گا۔ وہ مجھے ہمدردی دکھائیں گے اور میں نہیں چاہتا وہ بیٹھ کر مجھے تسلیاں دیں ۔عبدالرحمن نے لکھا کہ جب اس کا باپ رات کو اسے دیکھ دیکھ کر سو نہیں پاتا تو وہ اپنے باپ کو تسلی دینے کے لیے میری بیوی کی مثال دیتا ہے جو علاج کے بعد تندرست ہوگئی تھی۔اس تسلی کے بعد میرا باپ سو جاتا ہے۔میں نے رحمن کو جواب دیا: تمہیں پتہ ہے تم بہت بہادر بچے ہو۔ بہت کم لوگ اس بہادری سے کینسر سے لڑ سکتے ہیں‘ جس طرح تم لڑ رہے ہو۔ لیکن تم ایک کام غلط کررہے ہو ‘ تمہیں اپنے گھر اور رشتہ داروں کو بتانا چاہیے۔ یورپ میں ڈاکٹر پہلا کام یہ کرتے ہیں کہ وہ مریض کو اس کے گھر والوں کے سامنے بتا دیتے ہیں اسے کیا سنگین بیماری ہے۔ ان کا خیال ہوتا ہے شروع میں تو مریض کو بہت جھٹکا لگتا ہے کہ اسے ایسی خطرناک بیماری ہے جس میں بچنے کے امکانات بہت کم ہیں‘ لیکن ڈاکٹر پھر بھی بتاتے ہیں۔ جبکہ ہمارے ہاں مریض سے بیماری چھپائی جاتی ہے‘ تاکہ اس کا حوصلہ ختم نہ ہو جائے۔ اس لیے مرتے دم تک مریض کے علاوہ سب کو علم ہوتا ہے کہ اسے کیا بیماری ہے۔ یورپ کے ڈاکٹر سمجھتے ہیں کہ ہر انسان کے اندر زندہ رہنے کی جبلت ہوتی ہے۔ شروع میں صدمے سے نکلنے کے بعد مریض زندہ رہنے کی جدوجہد شروع کردیتا ہے اور اس کی یہ جبلت علاج میں بہت مدد کرتی ہے‘ لہٰذا تم اب اس خوف سے نکل آئو کہ اب لوگ یا رشتہ دار کیا کہیں گے۔ جب تم بہادری سے سب کچھ سامنا کررہے ہو تو پھر چھپانے کا کیا فائدہ۔عبدالرحمن کو اب بھی اپنے گھر والوں کی فکر تھی کہ جب انہیں پتہ چلے گا کہ اسے کینسر ہے اور وہ چند ماہ کا مہمان ہے تو ان پر کیا گزرے گی۔ اسے اپنی زندگی سے زیادہ اپنے باپ اور بہن بھائیوں کی فکر تھی۔ عبدالرحمن نے مجھے لکھ بھیجا کہ اس نے کبھی اپنے باپ کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھے۔ ماں کی موت پر وہ روئے تھے‘ لیکن اب ان کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر اسے تکلیف ہوتی ہے۔ میں کوشش کررہا تھا کہ وہ اپنی بیماری اور حالت سب کو بتائے۔ مجھے علم تھا کہ اس سے وہ بہتر محسوس کرے گا ۔ ابھی وہ خود کو اکیلا محسوس کررہا تھا اور اکیلا ہی یہ سارا بوجھ اٹھا رہا تھا‘پھر اسے جہاں خاندان سے ہمدردی ملے گی وہیں اس کے لیے دعائیں مانگنے والے بھی بڑھ جائیں گے۔ اور پھر اس سال انیس جون کوعبدالرحمن کا مجھے میسج ملا‘ جس میں لکھا تھا :کل میرے دوست نے میرے باپ کو بالآخر بتا ہی دیا کہ اس کے بیٹے کو کینسر ہے اور ڈاکٹرز نے جواب دے دیا ہے ۔ عبدالرحمن کا پھر میسج آیا: جب تک اس نے اپنے باپ، بھائی اوربہن کو بیماری کے بارے نہ بتایا تھا وہ بہتر تھا لیکن جب سے اس نے سب کو بتایا وہ خود کو عجیب اذیت کا شکار پاتا ہے۔ وہ ان سب کے چہروں پر پھیلی اداسی کا سامنا نہیں کرسکتا تھا ۔میں نے خود کو مجرم محسوس کیا ۔کیا میں نے عبدالرحمن کو یہ غلط مشورہ دیا تھا کہ وہ گھر میں سب کو اعتماد میں لے اور بتا دے ؟ اس کا پھر مجھے میسج ملا: وہ لاہور کیمو کے لیے گیا تھا ۔عبدالر حمن نے لکھا :اسے پتہ ہے کہ وہ موت کی طرف بڑھ رہا ہے ۔پرسکون نیند اس کی قسمت میں نہیں رہی ۔ وہ رات کو نہیں سو سکتا ۔ ہر گزرتا دن اسے موت کے قریب لے جارہا تھا۔ اب وہ اپنے علاج سے بھی مایوس ہوچکا تھا ۔ موت کا انتظار اسے شدید اذیت دے رہا تھا ‘لیکن وہ اپنے باپ کے لیے زندہ رہنا چاہتا تھا ۔ وہ حافظ قران تھا۔ اس نے ان جگ رتوں میں خدا سے گڑگڑا کر دعائیں مانگیں ‘ لیکن لگتا ہے سب بیکار گئیں ۔ لیکن عبدالرحمن اس بات سے بے خبر تھا کہ جب وہ مایوسی کی آخری حد کو پہنچ چکا تھا اور ذہنی طور پر مرنے کے لیے تیار تھا، اسی وقت ہی ایک معجزہ رونما ہونے والا تھا