لاہور (ویب ڈیسک) اقبال نے کہاتھا :خراج کی جو گدا ہو وہ قیصری کیا ہے ۔ اختیارات کی جنگ میں جتے لاہور کے دلاوروں نے چپ سادھ لی ہے ۔ بہت دیر سے چودھری سرور اور چودھری پرویزالٰہی کے ٹیلیفون نمبروں سے سر پھوڑ رہا ہوں۔برسوں کی یاد اللہ ہے ‘مگر جواب میں پتھر کی ایک گونگی بہری اندھی دیوار۔ نامور کالم نگار ہارون الرشید اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔آئندہ بلدیاتی الیکشن میں‘ چوہدری صاحبان نے پنجاب کے چھتیس میں سے گیارہ اضلاع مانگ لئے ہیں۔ موجودگی ان کی صرف چار اضلاع میں ہے‘ گجرات‘ منڈی بہائوالدین‘ چکوال اور بہاولپور۔ قومی اسمبلی کی پانچ اور صوبائی اسمبلی کی 10سیٹیں۔ عمران خان نے اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کی کبھی کوشش ہی نہ کی۔2002 ء میں پرویز مشرف سے امید باندھی۔2018ء میںکسی اور نے یہ آرزو پوری کی۔ 2013ء میں ٹکٹ دینے کا وقت آیا تو وہ خلا میں تھے۔ امیدواروں کے بارے میں بنیادی معلومات ہی نہ تھیں۔2011 ء میں اپنی کتاب ”میں اور میرا پاکستان‘‘ میں عمران خان نے لکھا‘67فیصد ووٹران کے ساتھ ہیں۔معلوم نہیں کس کا سروے تھا اور کیسے انہوں نے اس پر یقین کر لیا۔ خیالات کے اس فردوسِ بریں میں قیام پذیر ہونے کا نتیجہ یہ تھا کہ سفارش سے ٹکٹ دیا۔ پانچ دس جاوید ہاشمی اور پانچ سات شاہ محمود قریشی کی سفارش پر۔ کہا جاتا ہے کہ جاوید ہاشمی نے داد نقد پائی۔ شاہ محمود نے ٹکٹ مساکین میں بانٹے۔ اپنے پرانے ساتھیوں یا ایسے لوگوں کو ٹکٹ دلوائے‘ جو موصوف کے خیال میںذاتی طور پر ان کے وفادار تھے۔ سیاست میں ذاتی وفاداری کیا ہوتی ہے۔ وہ بھی دوسرے درجے کے ایک لیڈر کے ساتھ۔ 2002ء میں نون لیگ کے آدھے سے زیادہ امیدوار شریف خاندان کو چھوڑ کر چودھریوں سے جا ملے تھے۔ رفتہ رفتہ‘ دھیرے دھیرے اب بھی بہت سے چھوڑ جائیں گے۔ اب تک اگر رکے ہوئے ہیں‘ تو اس لئے کہ وسطی پنجاب میں نون لیگ کی حمایت اسی تندی سے برقرار ہے۔ جنرل محمد ضیاء الحق کے سائے تلے‘ بھٹو خاندان کے خلاف ابھرنے والے نواز شریف نے30 برس تک پنجاب میں اتنی سرمایہ کاری کی‘اتنی سرمایہ کاری کی کہ عمران خان لاہور میں سونے کی سڑکیں بھی بنوا دیں تو یہ آسانی سے تحلیل نہ ہو گی۔ سیاسی لیڈر ووٹروں کا قیدی ہوتا ہے۔ اس کے باوجود کہ شریف خاندان نے ارکان اسمبلی سے حسن سلوک کبھی نہ کیا۔ شاہی خاندان کے حالات‘ دوسری طرح سے دگرگوں ہیں۔ فدائین اور ”قابل اعتماد ذرائع‘‘ کا دعویٰ تھا کہ فولادی اعصاب کے نواز شریف محترمہ کلثوم نواز کے سوگ میں پڑے ہیں۔چالیسواں بیت جائے ‘تو دھاڑتے ہوئے نکلیں گے اور جنگل خالی کرا لیں گے۔اتنے وہ اداس بتائے گئے‘ جس طرح ممتاز محل کی موت نے راتوں رات شاہجہاں کے بال سفید کر دئیے تھے۔ وہ بھی ایک افسانہ تھا‘ یہ بھی افسانہ ہے۔ شاہجہاں کے بال سفید ہوئے تھے اور نہ آہنی اعصاب کے نواز شریف شاعر کی طرح درد کے مارے ہیں۔ اس شہر میں پھرتا ہے اک وحشی و آوارہ۔ شاعر ہے کہ عاشق ہے جوگی ہے کہ بنجارا۔ غم شدید بھی ہو سکتا ہے‘ مگر یہ اک داستاں تھی۔عاشقوں‘سیاستدانوں‘ اداکاروں اور کھرب پتیوں کے بارے میں صداقتیں کم اور داستانیں زیادہ ہوتی ہیں۔ سچ پوچھئے تو بات بس اتنی کہ ہمارا لیڈر ناکردہ کار ہے‘ تقریباً سب کے سب۔ یہ جو ”تقریباً‘‘ عرض کیا ہے‘ وہ صحافتی آداب کا تقاضا ہے۔ دونوں ہاتھوں سے بعض نے ملک کو لوٹا ہے۔بھیڑیوں کی طرح بے دردی اور سفاکی کے ساتھ۔ مفلس کا لہو چاٹا اور لطف اٹھایا۔اپوزیشن قومی اسمبلی میںشور مچائے یا سینیٹ کمیٹی میں ۔ اپنے جرائم کا جواب ہر کسی کو دینا ہے ۔یہ خدا کا قانون ہے اور اٹل ہے‘پہاڑوں،ہواوں، ستاروں اور آسمانوں کی طرح اٹل۔ ایک غیر اعلانیہ سمجھوتہ وہ ہے‘ جو زرداری اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ہو چکا۔ دوسر اوہ ہے‘ جو شریف خاندان کر چکا۔ مفاہمت نہ ہوتی تو شہباز شریف کو پورے ایک پہر فریاد کی ضرورت نہ ہوتی۔ تین گھنٹے کی بجائے‘ تین منٹ کافی ہوتے۔ اسٹیبلشمنٹ سے زرداری کی ساز باز نہ ہوتی تو تین دن میں سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کو اٹھا کر پھینک دیا جاتا۔ شاعر نے کہا تھا:حاجت ایسی چیز ہے کہ شیر کو لومٹری بنا دیتی ہے۔ جنگل میں حکمرانیٔ روباہ کا عہد ہے۔۔ بے چارے شیر اپنے کچھاروں میں قید ہیں ۔۔ عہد تمام ہوا۔ قید باقی ہے۔ لومڑیوں کی جگہ شکاری نے لے لی۔ اس بیچارے کا یہ ہے کہ اسے کچھ سوجھتا ہی نہیں ۔ ایک ڈھول ہے جو بائیس برس سے بج رہا ہے اور آئندہ بھی بجتا رہے گا کہ وہ کرپٹ ہر گز نہیں۔ پاکستان کے ہر محلے‘ ہر گائوں‘ ہر گلی میں ایماندار لوگ پائے جاتے ہیں۔ کیا وہ معجزے بھی برپا کر سکتے ہیں؟جی نہیں‘ اس کے لئے ریاضت درکار ہوتی ہے۔پیہم ریاضت سے رفعت درکار ہوتی ہے۔ عالی مرتبت کو بھی‘ جس کے فضائل کا بیان ہی ممکن نہیں‘ طائف‘ شعب ابی طالب‘ بدرو حنین سے گزرنا پڑا ہے۔خندق کھودنا پڑی ‘ پیٹ پہ پتھر باندھنا پڑے اور احد کے میدان میں دندان مبارک شہید کئے گئے۔معلوم نہیں یہ کس قماش کے لوگ ہیں‘ بظاہر پڑھے لکھے مگر ہتھیلی پہ گلستاں کھلانے کو تلے ہوئے۔ اتوار کونہیں تو منگل کو منگل کو نہیں تو ہفتے کے دن۔ ہفتے کو وزیراعظم نے اعلان کیا: کل ایسے انکشافات میں کروں گا کہ اخبار نویس بھی حیران رہ جائیں گے۔ چمچوں اور پلیٹوں کی آوازیں سنائی دیتی رہیں‘ طعام نہ پہنچ نہ سکا۔ معلوم ہوا کہ بعض وزراء نے چپ رہنے کا مشورہ دیا۔ ایک بار‘ دو بار‘ دس بار‘ کتنی بار یہ تماشا ہو چکا۔ آخرکار تجربات سے سبھی سیکھ لیتے ہیں۔ یہ مردانِ جرّی کیوں نہیں سیکھ پائے؟ اس لئے کہ مردان جرّی ہیں۔ریاضت کی ضرورت ہے نہ تعلیم کی نہ مشاورت کی۔ ان کے نزدیک شجاعت ہی زندگی کا واحد اثاثہ ہے‘ الفاظ ہی سبھی کچھ ہیں‘ دعوے ہی اثاثہ ہیں۔ غوروفکر کی فرصت نہیں۔ آٹھ برس ہوتے ہیں‘ وزیراعلیٰ شہباز شریف نے یاد فرمایا: بلوچستان پہ اس ناچیز کی معروضات سننے کے لئے بات کر چکا تو فرمایا کہ یہ سب کچھ آپ کیسے کر لیتے ہیں۔ عرض کیا: بارہ دن بلوچستان میں گزارے۔ ماہرین کو سنتا رہا۔ نکات مرتب کیے‘ سوچتا رہا۔ ترتیب دیتا رہا۔ فرمایا: میرا مسئلہ یہ ہے کہ سوچ بچار کا وقت نہیں ملتا۔ یاللعجب 16گھنٹے بیل کی طرح بھاگنے کے بجائے دو گھنٹے کوئی آدمی کی طرح سوچ لیا کرے۔ یہی اصل مسئلہ ہے‘ عمران خان کا بھی یہ یہی اصل مسئلہ ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ بہت بھاگنے اور وزرش کرنے والا آدمی اعتمادسے لبریز ہو جاتا ہے، چھلکنے لگتا ہے‘ جذباتی توازن کھو دیتا ہے۔ شہباز شریف کو کسی پل چین نہ تھا‘ عمران خان کو بھی نہیں۔ وزیراعظم جب سے بنے ہیں‘ کبھی چھٹی نہیں کی۔چھٹی کرو اللہ کے بندے‘ اہل علم سے بات کیا کرو‘ ماہرین سے ملا کرو۔ لیڈر کو ذہنی ریاضت درکار ہوتی ہے۔ بہت بھاگ دوڑ دوسرے درجے کے آدمیوں کا کام ہے۔ برصغیر کی تاریخ میں قائداعظمؒ سے زیادہ ریاضت کیش شاید ہی کبھی کوئی گزرا ہو۔میز پہ کھانا چن دیا جاتا‘ کام میں وہ جتے رہتے۔ ملازم آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا‘ جواب ملتا: شروع کیجئے‘ ابھی آتا ہوں۔ تیسری بار خود محترمہ فاطمہ جناحؒ کو زحمت کرنا پڑتی۔ باایں ہمہ‘ بہت سا وقت وہ اپنے ساتھ گزارا کرتے۔1946ء کے تاریخ ساز الیکشن کے نتائج انہوں نے دور دراز کے ایک پہاڑی گاؤں میں سنے۔ اورنگ زیب عالمگیر چالیس برس شمشیربردار رہے‘ گھوڑے کی پیٹھ پہ سوار۔شام کو مگر اپنے خادم حسن کے ہمراہ جمنا کے کنارے جایا کرتے۔دریا کی لہروں سے اس گمشدہ محبت کا پتہ پوچھتے ، عمر بھر فاتح کو جس نے مسکرانے نہ دیا۔بیوی کا ستایا لنکن کھیتوں میں گھوما کرتا۔وزیراعظم کو اگر کوئی فکر لاحق ہے تو نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے احتساب کی ۔ ارے بھائی‘ حکمران کو کوڑے مارنے کے سوا بھی بہت سے کام ہوتے ہیں۔آنسو پونچھنے ہوتے ہیں۔ سر ڈھانپنے ہوتے ہیں۔ تین دن سے مندی ہے۔سٹاک مارکیٹ ڈوبی، ڈوب کے ابھری، اب پھر ڈوب رہی ہے۔