counter easy hit

بچھڑے کچھ اس ادا سے۔ ۔ ۔

یوں تو دنیا کی زندگی 4 دن کی ہے، اور جس نے جنم لیا ہے اُسے مرنا بھی ہے، دنیا میں ہر روز کتنے ہی لوگ مرتے ہیں، کچھ اپنے ہوتے ہیں کچھ پرائے، اور بہت سوں سے تو ہم واقف ہی نہیں ہوتے، لیکن کچھ لوگوں سے ہمارا تعلق نہ ہونے کے باوجود بھی ایسا لگتا ہے جیسے کوئی قریبی رشتہ ہو، وہ لوگ جب اس دنیا سے چلے جائیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے،

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ ، رُت ہی بدل گئی

اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا۔۔

کچھ ایسے ہی لوگ جو بہت عرصے سے اپنی کسی نہ کسی خوبی کے باعث لاکھوں دلوں پر راج کر رہے تھے، اس سال 2016 میں ہم سے بچھڑ کر اپنے آخری سفر کو رواں دواں ہو

THE PEOPLE LEFT US IN 2016

THE PEOPLE LEFT US IN 2016

گئے، ان میں پاکستانی فلم اور ڈرامہ انڈسٹری، گلوگاری، سیاست، مذہبی، قوالی، شاعری، افسانہ نگاری، سول سوسائٹی، سماجی کارکن اور کھیلوں کی دنیا کے کئی بڑے اور چھوٹے نام شامل ہیں۔

بچھڑنے والوں میں سب سے پہلا نام تھا صاحبزادہ یعقوب علی خان کا جو 2016 میں 27 جنوری کو 95سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ سابق وزیر خارجہ لیفٹیننٹ جنرل (ر)صاحبزادہ یعقوب علی خان کی آنکھوں نے ملکی سیاست کے کئی ادوار کا مشاہدہ کیا، اور کثیر جہتی شخصیت ہونے کے ناتے ملک کے لیے اپنی خدمات پیش کرتے رہے۔ ان کی سفارت کاری انسانی ادراک و تدبر سے مرصع تھی، کئی زبانوں پر عبور رکھتے تھے،عالم اسلام کی متعدد شخصیات سے ان کی ذاتی دوستی تھی۔ علم و فکر اور سیاسی و سفارت کارانہ تجربات کا بحر بے کراں تھے۔انھیں تین فوجی سربراہوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا، اقوام متحدہ میں پاکستان کے خصوصی نمائندے کے طور پر قوم کا وقار بلند کیا۔آغا خان یونیورسٹی کا قیام ان کی کوششوں کا مرہون منت ہے۔ اپنی وطن دوستی ، علم و دانش اور شرافت کے باعث وہ ہمیشہ یاد رہیں گے۔

ہم سے جدا ہونے والوں میں اگلا نام تھا کرکٹر اسرار علی کا ہے جو گزشتہ کئی سال سے خاموش زندگی گزارنے کے بعد 1فروری 2016 کو 88 سال کی عمر میں اوکاڑہ میں انتقال کرگئے۔ انھوں نے اپنے کیرئر کا آغاز پاکستان کے وجود میں آنے سے قبل 47-1946 میں پنجاب سے کیا اور 53-1952 میں عبدالحفیظ کاردار کی قیادت میں ہندوستان کا دورہ کرنے والی پہلی کرکٹ ٹیم کے رکن تھے۔ کرکٹ سے کنارہ کشی کے بعد وہ انتظامی معاملات میں کھیل سے جڑے رہے جبکہ 1981 سے 1982 تک ملتان ریجن کے صدر ، 1983 اور 1984 میں قومی سلیکشن کمیٹی کے رکن بنے۔ڈھاکا ٹیسٹ میں فیول کو بولڈ کرنے کو وہ اپنے کریئر کا یادگار ترین لمحہ قرار دیتے تھے۔ ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا تھا کہ “1987 کے بعد کرکٹ سے علیحدہ ہوا، کیونکہ میں کھیل پر بھرپور توجہ نہیں دے پارہا تھا اور اوکاڑہ میں گم نامی کی زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا۔

اگلے ہی دن 2 فروری 2016 کو معروف افسانہ نگار انتظار حسین 93 برس کی عمر میں لاہور میں انتقال کر گئے۔ان کا شمار موجودہ عہد میں پاکستان ہی کے نہیں بلکہ اردو فکشن، خاص طور پر افسانے یا کہانی کے اہم ترین ادیبوں میں کیا جاتا تھا۔سنہ 1923 میں ہندوستان کے ضلع میرٹھ میں پیدا ہوئے اور میرٹھ کالج سے اردو میں ایم اے کیا۔تقسیم ہند کے وقت ہجرت کر کے پاکستان آئے اور صحافت کے شعبے سے وابستہ ہو گئے۔ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’گلی کوچے‘ 1953 میں شائع ہوا تھا۔ان کے افسانوں کے 8 مجموعے، 4 ناول، آپ بیتی کی 2 جلدیں، ایک ناولٹ شائع ہوئے۔اس کے علاوہ انھوں نے تراجم بھی کیے اور سفر نامے بھی لکھے۔ان کے اردو کالم بھی کتابی شکل میں شائع ہو چکے ہیں اور وہ انگریزی میں بھی کالم لکھتے رہے۔انتظار حسین کا ایک ناول اور افسانوں کے 4 مجموعے بھی انگریزی زبان میں شائع ہو چکے ہیں۔انتظار حسین کو ان کی گراں قدر ادبی خدمات کے اعتراف میں پاکستان، بھارت، مشرق وسطیٰ اور یورپ میں بھی کئی اعزازات سے نوازا گیا۔

2 فروری کو ہی ایک اور نام اس دنیا سے رخصت ہوا، وہ نام تھا کرکٹر مبین مغل، انھوں نے اپنے کرئیر کا آغاز 2011میں فرسٹ کلاس کرکٹ سے کیا اور2012تک 12میچوں میں بلے بازاور وکٹ کیپر کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دئیے۔چونکہ مبین مغل سیالکوٹ سے تعلق رکھتے تھے تو ان کی یاد میں سیالکوٹ کے ڈسٹرکٹ کرکٹ ایسوسی ایشن نے سیالکوٹ کے 32کلبز کے درمیان ایک ٹورنامنٹ منعقد کیا جسے کافی سراہا گیا۔

ماہِ فروری کی 10تاریخ کو اردو ڈرامہ نگاری کی ایک اہم شخصیت مشہور و معروف ڈرامہ نگار اور ادیبہ فاطمہ ثریا بجیا 85برس کی عمر میں جہان فانی سے کوچ کر گئیں، وہ 1960 میں پی ٹی وی سے منسلک ہوئیں اور 1966 میں آغا ناصر کے ڈرامے سے اداکاری کا آغاز کیا۔ان کے بیشتر ڈرامے جیسے شمع، آگہی، افشاں، عروسہ اور انا بہت بڑی کاسٹ اور بڑے خاندانوں کے مسائل کی بہترین عکاسی کرتے رہے ہیں، جبکہ انارکلی، زینت، آگہی، بابر اور سسی پنوں ان کے مقبول ترین ڈراموں میں سے چند نام ہیں۔ ان کو حکومت پاکستان کی طرف سے تمغہ حسن کارکردگی سے بھی نوازا گیا، جب کہ 2012 میں ان کو صدر پاکستان کی طرف سے ہلال امتیاز دیا گیا۔انھوں نے سندھ حکومت کی مشیر برائے تعلیم کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔حکومت پاکستان نے ان کی خدمات کے صلے میں انھیں تمغہ حسن کارکردگی اور ہلال امتیاز سے نوازا۔

پاکستانی کی نامور صحافی نوشابہ برنی 11 فروری 2016 کو 83سال کی عمرمیں کراچی میں انتقال کر گئیں۔ انھوں نے برصغیر کی تقسیم کے بعد اپنی فیملی کے ہمراہ ہجرت کر کے پاکستان میں رہائش اختیار کی۔ 1950 کی دہائی میں کیلیفورنیا کی بارکلے یونیورسٹی سے جرنلزم میں ماسٹرز کیا جبکہ جامعہ کراچی میں جرنلزم کے اُستاد کی حیثیت سے فرائض انجام دئیے۔ بعد ازاں ڈان اخبار کے ساتھ بحیثیت ایڈیٹر منسلک رہیں اور پھر آغا خان یونیورسٹی اسپتال میں پبلک ریلیشنز کے شعبے کے لیے منتخب ہوئیں۔ وہ سماجی مسائل پر لکھا کرتی تھیں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی کے ممتاز افراد سے انٹرویوز کئے۔

فروری کے آخری ہفتے میں لاہور سے تعلق رکھنے والے کرکٹر وقار احمد 60 سال کی عمر میں 23 اس فانی دنیا سے کوچ کر گئے۔ انھوں نے 17 سال کی عمر میں اپنے کرئیر کا آغاز 1964 میں پنجاب یونیورسٹی سے کیا۔ 1967 میں دورہ انگلینڈ میں بھی ٹیم کا حصہ رہے اور عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ 1964 سے 1973 تک فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلے۔1997 سے 1999 تک سیکرٹری کرکٹ کنٹرول بورڈ آف پاکستان کے عہدے پر تعینات رہے۔

25 فروری 2016 کو پاکستانی فلم انڈسٹری کے ممتاز اداکار حبیب الرحمن 77سال کی عمر میں دماغ کی شریانیں پھٹنے کے باعث انتقال کر گئے۔ وہ پاکستان کی پنجابی اور اردو فلموں کے ممتاز اداکار تھے انھوں نے اپنے کرئیر کا آغاز 1956میں بننے والی فلم ’’لخت جگر‘‘ سے کیا۔ اور سیکڑوں فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ ان کی مشہور فلموں میں ’’شہرت، معصوم، زہر عشق اور ہتھکڑی‘‘ شامل ہیں۔ انہوں نے ٹی وی ڈراموں میں بھی اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ حکومت کی جانب سے اُنھیں صدارتی تمغہ حسن سے بھی نوازا گیا تھا۔

28مارچ 2016 کو پاکستان کے ماہر اقتصادیات منظور حسین مرزا 85سال کی عمر میں لاہور میں انتقال کر گئے۔ وہ محکمہء تعلیم کے ایڈیشنل سیکرٹری اور معاشیات کے پروفیسر کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ اس کے علاوہ انھوں نے انگریزی اور معاشیات پر بہت ہی کتابیں لکھیں۔

13اپریل کو سندھی زبان کے ناور ادیب و دانشور آغا سلیم طویل علالت کے بعد اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ ان کا اصل نام تو آغا سلیم خالد تھا، لیکن وہ اپنے قلمی نام آغا سلیم سے جانے جاتے تھے ،وہ ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے اور اسٹیشن ڈائریکٹر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ آغا سلیم نے سندھی زبان میں کئی ناول اور کہانیاں لکھیں جب کہ انہوں نے سندھ کے صوفی بزرگ شاہ عبدالطیف بھٹائی کی شاعری کا اردو اورانگریزی میں ترجمہ بھی کیا۔ اُنھیں سندھی نثر و نظم دونوں پر دسترس حاصل تھی، ان کے مقبول ناول اورافسانوں میں چاند کی تمنا، اندھیری دھرتی روشن ہاتھ، نامکمل انسان، ہم اوست، لذت گناہ، درد کا شہر، شاہ عبدالطیف کی شاعری کا ترجمہ لالن لال لطیف کہے، اور باب فرید کا ترجمہ صدیوں کی صدا شامل ہیں۔ حکومت پاکستان نے انہیں 14 اگست 2005 اور 14 اگست 2013 کو 2 مرتبہ صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا۔

24 اپریل کواسلامی اسکالر ظفر اسحاق انصاری دل کا دورہ پڑنے کے باعث انتقال کر گئے۔ وہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے اسلامک ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر جنرل رہے۔ اس سے پہلے وہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے صدر تھے۔ کتابوں اور مضامین کی ایک بڑی تعداد شائع کرنے کے علاوہ انہوں نے اسلامی علوم اور بین المذہبی مکالمے پر بین الاقوامی کانفرنسوں میں تقاریر بھی کیں۔ ظفر اسحاق انصاری علمی خاندان سے تعلق رکھتے تھے، اُنھیں انگریزی اور اردو کے علاوہ عربی، فارسی، فرانسیسی اور جرمن زبانوں پر بھی دسترس حاصل تھی۔ 1988 سے 2016 تک، ڈاکٹر انصاری اسلامی ریسرچ انسٹیٹیوٹ، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر فرائض انجام دیتے رہے۔۔

سابق صحافی اور سول سوسائٹی کے رہنما خرم ذکی 7 مئی 2016 کو نارتھ کراچی سلیم سینٹر کے قریب ہوٹل پر فائرنگ میں جاں بحق ہوئے۔ ان کا شمار سول سوسائٹی کے سرگرم رہنماؤں میں ہوتا تھا جبکہ وہ ماضی میں صحافت کے پیشے سے بھی منسلک رہے اور نجی ٹی وی چینلز میں اپنی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ سول سوسائٹی کی نمائندگی کرتے ہوئے مختلف امور پر احتجاجی مظاہرے بھی کر چکے ہیں اور مختلف ممالک کے قونصل خانوں کے باہر بھی مظاہروں میں شامل رہے۔

مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی ملک اقبال مہدی 24 مئی 2016 کو بھارت میں جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ وہ این 63 سے مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے، وہ عارضہ جگر میں مبتلا تھے اور جگر کی پیوندکاری کیلئے بھارت گئے تھے۔

ماہِ جون ہی میں ایک اور ادیب ڈاکٹر اسلم فرخی طویل علالت کے بعد 15 جون 2016 کو کراچی میں وفات پاگئے۔ ڈاکٹر اسلم فرخی نے طویل عرصہ تک کراچی یونیورسٹی میں اردو ادب کی تعلیم دی۔ وہ ایک ممتاز نقاد، بلند پایہ خاکہ نگار، شاعر اور سب سے بڑھ کر ایک انتہائی محبت کرنے والے استاد تھے۔ انھوں نے ریڈیو پاکستان پر بھی خدمات سرانجام دیں۔

جون کی 22تاریخ کو پاکستانی قوالی کے ایک مایہ ناز قوال امجد صابری کو رمضان کے پروگرام کی ریکارڈنگ کے لئے آتے ہوئے کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں نامعلوم حملہ آوروں نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔ ان کا تعلق پاکستان کے ایک مشہور قوال گھرانے سے تھا،ان کے والد حاجی غلام فرید صابری اور ان کے بھائی حاجی مقبول احمد صابری نے مل کر پاکستان کا نامور ترین قوال گروپ تشکیل دیا تھا۔ وہ 23 دسمبر 1976 کو پیدا ہوئے۔ انھوں نے 9 سال کی عمر میں موسیقی سیکھنے کا آغاز کیا۔ قوالی کا فن اُنھیں وراثت میں ملا تھا۔ والد اور چچا کے بعد امجد علی صابری نے اس مقام کو برقرار رکھتے ہوئے نوجوان نسل میں قوالی کا شوق پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور اپنے والد کی طرح بے حد مقبول ہوئے۔ 22 جون 2016 کو۔ 45سالہ امجد صابری کا شمار جنوبی ایشیا کے نامور قوالوں میں ہوتا تھا۔

24 جون کو لوک گلوکار اللہ ڈینو خاصخیلی ٹنڈو الہ یار کے قریب ایک کار حادثہ میں جاں بحق ہوگئے۔ وہ سندھ کے ایک کلاسیکل گلوکار تھے۔ انھوں نے موسیقی کی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔ انھوں نے بہت سے سندھی گانے گائے۔ انھوں نے شاہ عبدالطیف کی سچل سرمست اور بہت سی شاعری کوگانے کی صورت میں گایا۔

25جون کو لیفٹننٹ جنرل فرّاخ خان راولپنڈی میں وفات پا گئے۔ انھوں نے 1959میں گھڑ سوار کے ماتحت کے طور پر پاکستان آرمی میں شمولیت اختیار کی۔ اور ایک جوان سالہ کپتان کی حیثیت سے 1965کی انڈیا پاکستان کی جنگ لڑی۔اس جنگ کے بعد وہ ترقی کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے مختلف عہدوں پر فائز ہوئے۔ ان کا سب سے اہم عہدہ ڈائریکٹر جنرل پنجاب رینجرز کا تھا، جس پر وہ 1984 سے 1985 تک فائز رہے۔ لیفٹننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی کے بعد اُنھوں نے کور کمانڈر پشاور کا عہدہ سنبھالا اور پھر 1991سے1994تک چیف آف جنرل اسٹاف کے عہدے پر تعینات رہے۔

8جولائی کو کرکٹر جاوید اختر 75برس کی عمر میں راولپنڈی میں جہان فانی سے کوچ کر گئے۔1944 میں نئی دہلی پیدا ہونے والے میں جاوید اختر نے 1962 میں پاکستان کی جانب سے واحد ٹیسٹ میچ کھیلا، 90 کی دہائی میں انہوں نے اٹھارہ ٹیسٹ اورچالیس ایک روزہ میچز میں امپائرنگ کے فرائض بھی انجام دیئے۔

8جولائی کو ہی پاکستان کے مایہ ناز سماجی کارکن عبدالستار ایدھی جنہیں انسانیت کے ساتھ ساتھ پاکستانی عوام اور پاکستانی قوم سے بھی بہت محبت تھی، اس فانی دنیا سے رخصت ہوئے۔ عبدالستار ایدھی 1928کو بھارت کے شہر گجرات میں بانٹوا نامی گاؤں میں پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند کے وقت پاکستان ہجرت کی۔انہوں نے 1951 میں خدمتِ خلق کا فیصلہ کیا اور شہرِ قائد کے قلب میں نہایت پرامید ہو کر اپنا کلینک کھولا۔ایدھی اور ان کی ٹیم نے میٹرنٹی وارڈز، مردہ خانے، یتیم خانے، شیلٹر ہومز اور اولڈ ہومز بھی بنائے، جس کا مقصد معاشرے کے غریب و بے سہارا لوگوں کی مدد کرنا تھا۔ ان کی ایمبولینس سروس دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس گردانی جاتی ہے۔ان کی شاندار خدمات پر حکومت پاکستان کی جانب سے 1989 میں نشان امتیاز سے نوازا گیا۔وہ گردوں کے عارضہ میں مبتلا تھے۔ انھوں نے معاشرے کے نادار لوگوں کی خدمت کی ایک ایسی فصیل قائم کی جس کو عبور کرنا ایک چیلنج ہوگا۔

12جولائی کو پاکستان براڈ کاسٹنگ کی دنیا کی اہم شخصیت آغا ناصر79برس کی عمر میں طویل علالت کے بعداسلام آباد میں انتقال کر گئے۔ پاکستان میں ریڈیو، ٹی وی اور فلمی صنعت سے منسلک رہنے والی معروف شخصیت آغا ناصر نے اپنے کیریئر کا آغاز 1955 میں ریڈیو پاکستان میں بحیثیت براڈکاسٹر کیا تھا، بعد ازاں وہ ادارے کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر بھی فائز رہے۔1964 میں وہ پی ٹی وی سے منسلک ہوگئے جہاں بطور ہدایتکار اور پروڈیوسر کام کیا۔ وہ کچھ عرصے کے لیے پی ٹی وی کے مینیجنگ ڈائریکٹر بھی رہے،ان کی ایک تخلیق ’تعلیم بالغاں‘ کو پی ٹی وی پر نشر کیے جانے والے بہترین ڈراموں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔انھوں نے کئی فلموں میں ہدایت کاری بھی کی جن میں وحید مراد اور طلعت اقبال جیسے اداکاروں نے کام کیا۔وہ ایک اچھے مصنف بھی تھے انھوں نے کل چھ کتابیں تحریر کیں اور ان کی ثقافت پر تحریروں کو کافی پسند کیا گیا۔ریٹائرمنٹ کے بعد وہ ایک نجی ٹی وی چینل سے بھی منسلک رہے۔انھیں ان کی خدمات کے نتیجے میں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے بھی نوازا گیا۔

15جولائی کو پاکستانی ماڈل قندیل بلوچ کو ان کے آبائی گھر میں قتل کر دیا گیا۔ فیس بک کے ذریعے شہرت حاصل کرنے والی پاکستانی ماڈل قندیل بلوچ لمبے عرصے تک اپنی ویڈیوز اور مختلف لوگوں سے متعلق اپنے بیانات کی وجہ سے میڈیا کی خبروں کی زینت بنی رہیں۔

21 جولائی 2016 کو معراج محمد حسین طویل علالت کے بعد 77 برس کی عمر میں کراچی میں انتقال کر گئے۔ معراج محمد خان جنہیں بائیں بازو کے حلقوں میں بڑی قدرکی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، 20 اکتوبر 1948 کو ہندوستانی ریاست اترپردیش کے شہر فرخ آباد میں پیدا ہوئے اور پھر وہاں سے ہجرت کرکے ان کا خاندان کوئٹہ آگیا۔کوئٹہ سے میٹرک کرنے کے بعد وہ کراچی منتقل ہوئے اور جامعہ کراچی سے ایم اے کیا۔دوران تعلیم ہی وہ طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (این ایس ایف) کے سرگرم کارکن رہے اور جلد ہی تنظیم کے صدر بن گئے۔وہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے بانی رکن ذوالفقار بھٹو کے قریبی ساتھی اور ان کی کابینہ میں وزیرِ محنت بھی رہے، بعدازاں انھوں نے پیپلز پارٹی چھوڑ کر 1977 میں اپنی پارٹی ‘قومی محاذ آزادی’ بنالی۔1998 میں وہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے جنرل سیکرٹری بنے لیکن چیئرمین عمران خان سے اختلافات کے بعد 2003 میں انہوں نے نہ صرف تحریک انصاف بلکہ عملی سیاست سے بھی کنارہ اختیار کرلیا۔

31جولائی کو پاکستانی سیاست کی ہی ایک اور شخصیت انور علی چیمہ انتقال کر گئے۔ چوہدری انور علی چیمہ جنہوں نے ایک بھرپور سیاسی زندگی بسر کی،مسلسل 7بار ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے ، کبھی کوئی الیکشن نہیں ہارا۔وہ پاکستان کی سیاست میں انتہائی اہم کردار کے حامل تھے۔

5اگست کو پاکستانی فلم انڈسٹری کی معروف اداکارہ شمیم آراء 78برس کی عمر میں لندن میں انتقال کر گئیں۔ پاکستان فلم انڈسٹری کی خوبصورت اور مشہور اداکارہ شمیم آراء جن کا اصل نام پتلی بائی تھا، وہ 1938 میں ہندوستان کے شہر علی گڑھ میں پیدا ہوئیں۔ انھوں نے اپنے فلمی کیرئیر کا آغاز فلم کنواری بیوہ سے کیاجو1956 میں کراچی سے ریلیز ہوئی۔ان کی بہترین فلموں میں فرنگی، آگ کا دریا، ہم راز اور دیوداس وغیرہ شامل ہیں۔انہوں نے ان فلموں کے ساتھ ساتھ پنجابی فلموں میں بھی اداکاری کی جن میں جائیداد اور تیس مار خان شامل ہیں۔انہیں فنکارانہ صلاحیتوں پر چار مرتبہ نگار ایوارڈ سے نوازا گیا۔وہ زندگی کے آخری6برس کومہ میں رہیں۔

8 اگست کو سندھ کے مشہور ڈرامہ نگار علی بابا 76سال کی عمر میں برین ہیمریج کے باعث کراچی میں انتقال کر گئے۔ ڈرامہ نگار علی محمد عرف علی باباجو ابتداء میں ریلوے اور ٹیکسٹائل کے محکموں سے منسلک تھے، انھوں نے 1965میں مختصر کہانیوں سے لکھنے کا آغاز کیا اور ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ڈراموں سے شہرت حاصل کی۔اُنکا ڈرامہ دھرتی دھکانہ جس میں تقسیم ہند کے بعد عوام کی حالتِ زار کی عکاسی کی گئی تھی سندھی ادب میں ایک خاص مقام رکھتا ہے۔اسکے علاوہ ان کا بین الاقوامی شہرت یافتہ ڈرامہ” ڈنگی مانجھ دریا ” نے جرمنی کے سالانہ ڈرامہ میلے میں تیسرے بہترین ڈرامے کا ایوارڈ حاصل کیا۔

9اگست کو گورنر آف اسٹیٹ بینک آف پاکستان آفتاب غلام نبی قاضی 97 سال کی عمر میں اسلام آباد میں طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے۔ انھوں نے برطانوی دورِ حکومت میں اپنے کیرئیر کا آغاز کیا اور اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔50سال سول سروس میں خدمات انجام دیں۔ ابتداء میں انھوں نے ہندوستان کی ریاستوں بہار اور اُڑیسہ کے لئے کام کیا۔تقسیمِ ہند کے بعد سندھ حکومت میں اور پھر مغربی پاکستان میں وزیر خزانہ کی حیثیت سے فرائض انجام دئیے۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء دور میں اقتصادی امور پر صدر کے مشیر کے طور پر بھی منتخب ہوئے۔ وہ ملک کے جوہری پروگرام کی نگرانی کے لئے قائم کیے گئے کو آرڈینیشن بورڈ کے رکن بھی رہے۔اس کے علاوہ چیئر مین واپڈا، چیئر مین فیڈرل بورڈ آف ریوینیو، گورنر اسٹیٹ بینک پاکستان اورپلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئر مین کے فرائض بھی انجام دئیے۔اُنھیں ستارہ پاکستان اور ستارہ خدمت کے اعزازات سے نوازا گیا۔

11اگست کوعالمی شہرت یافتہ پاکستانی کرکٹر اور قومی ٹیم کے سابق کپتان حنیف81برس کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ وہ ان کھلاڑیوں میں شامل ہیں جنھیں پاکستانی کرکٹ کا اولین سپر اسٹار کہا جا سکتا ہے۔ان کی بے عیب تکنیک اور ہر قسم کے حالات میں وکٹ پر لمبے عرصے تک ٹھہرے رہنے کی صلاحیت وہ خوبیاں ہیں جنھوں نے لاکھوں لوگوں کو ان کا گرویدہ بنا دیا۔ انھوں نے 55 ٹیسٹ میچوں کی 97 اننگز میں 43.98 کی اوسط سے 3915 رنز بنائے، جن میں 12 سنچریاں اور 15 نصف سنچریاں شامل ہیں۔ان کی وجہ شہرت ان کی وہ طولانی اننگز ہے جو انھوں نے برج ٹاؤن میں 58-1957 کی سیریز میں کھیلی تھی۔990 منٹ پر محیط اس اننگز کا ریکارڈ آج بھی ٹیسٹ کرکٹ کی طویل ترین اننگز کے طور پر قائم ہے جس کے دوران انھوں نے 337 رنز بنائے تھے۔اس کے علاوہ فرسٹ کلاس کرکٹ میں 499 رنز کا ریکارڈ ایک عرصے تک قائم رہا جسے برائن لارا نے توڑا۔حکومت پاکستان نے ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر انہیں 1960 میں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا ۔محمد حنیف کینسر کے مرض میں مبتلا تھے۔

14اگست کو اسکواش پلیئرسہیل قیصر 50برس کی عمر میں پھیپھڑوں کے سرطان کے باعث لاہور میں انتقال کر گئے۔ سابق اسکواش کھلاڑی سہیل قیصر نے 1982میں ورلڈ جونیئر چیمپین شپ جیتی۔سہیل قیصرورلڈ جونیئر، ورلڈ انڈر 23 چیمپئن شپ سمیت ورلڈ ٹیم ایونٹس میں گولڈ میڈل حاصل کرچکے تھے اور 1985میں ورلڈ ٹیم چیمپین شپ جیتنے والی ٹیم کے بھی رکن رہے۔

12 اکتوبر کو کھیلوں کی دنیا کی ایک اور شخصیت شہلائلہ بلوچ صرف 20سال کی عمر میں ایک کار حادثے میں انتقال کر گئیں۔فٹ بال میں ہیٹ ٹرک کرنے والی پہلی ویمن کھلاڑی شہلائلہ بلوچ گزشتہ چار سال سے پاکستان ویمن فٹبال ٹیم بلوچستان یونائیٹد کی مستقل رکن تھیں ، شہلائلا بلوچ کو پاکستان ویمن فٹبال کی بہترین دریافت اور پاکستانی میسی کہا جاتا تھا، انھوں نے 2014 میں سیف فٹ بال چیمپین شپ میں پاکستان کی نمائندگی کی تھی اور بہترین کھلاڑی کا ایوارڈ بھی اپنے نام کیا تھا ،وہ ڈومیسٹک فٹ بال میں بلوچستان یونائیٹڈ ایف سی کی نمائندگی کرتی تھیں۔

3نومبرکو پاکستان ٹی وی پروڈیوسر یاور حیات خان 73 برس کی عمر میں مختصر علالت کے بعد لاہور میں انتقال کرگئے۔ یاور حیات خان 1965سے 2004 تک پی ٹی وی سے وابستہ رہے انہوں نے پی ٹی وی کے باصلاحیت پروڈیوسر کے طور پر سید شبیر حسین کے تحریر کردہ ناول جھوک سیال پر سیریل بنایا جس نے عوام میں پذیرائی حاصل کی، یاور حیات خان نے اسی کی دھائی میں یادگار ڈرامہ سیریل نشیمن، دہلیز ،ساحل ،گمشدہ بھی بنائے۔

11 نومبر پاکستان کے معروف گلوکار اے نیّر چھیاسٹھ برس کی عمر میں عارضہ قلب کے باعث لاہور میں انتقال کرگئے۔ پاکستان کے معروف گلوکار اے نیّر نے پنجاب یونیورسٹی سے بحیثیت انگلش ٹیچر اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا، جبکہ 1974 میں جی رہے ہیں ہم تنہا گا کر انہوں نے اپنا فنی سفر شروع کیا۔اے نیر کے گیت ‘یونہی دن کٹ جائے یوں شام ڈھل جائے’ کو شائقین نے کافی پسند کیا،مگر فلم خریدار کے گیت، پیار تو اک دن ہونا تھا نے ان کو عوامی مقبولیت کی ایسی سند عطا کی جو کم ہی فنکاروں کے حصہ میں آتی ہے۔بہترین گلوکاری پر پانچ بار نگار ایوارڈ بھی حاصل کیا۔موسیقی کے لیے اے نیئر کے خدمات کو تادیر یاد رکھا جائے گا۔

14نومبرکو سیاست کی دنیا کی ایک اہم شخصیت جہانگیر بدر 72 برس کی عمر میں لاہور میں اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ انھوں نے 60 کی دہائی میں طلبا سیاست میں قدم رکھا وہ پی ایس ایف کے پلیٹ فارم سے ہہلے کالج یونین کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں پی ایچ ڈی کی۔ جہانگیر بدر ان سیاستدانوں میں شامل ہیں جنہوں نے دور آمریت میں کوڑے بھی کھائے۔ ان کا شمار بے نظیر بھٹو کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا تھا۔ پیپلز پارٹی کے دور میں 2 مرتبہ وفاقی وزیر رہے۔ اپنے سیاسی کیرئیر کے دوران انہوں نے کئی کتابیں بھی لکھیں۔ سیاسی زندگی کے آغاز سے اختتام تک پیپلز پارٹی کے ساتھ رہے وہ پاکستان کے واحد سیاستدان ہیں جنہوں نے 4آمروں کے دور میں صعوبتیں برداشت کیں۔وہ دل اور گردوں کے عارضے میں مبتلا تھے۔

16نومبرکو ایک اور سیاسی شخصیت زاہد میمن لندن میں انتقال کر گئے۔زاہد میمن نے سیکریٹری اطلاعات،ڈی جی مائنز اینڈ منرل اور اسپیشل سیکریٹری داخلہ کی حیثیت سے فرائض انجام دئیے۔وہ دل کا دورہ پڑنے کے باعث 19دن کومہ میں رہے۔

18نومبر کو ایک اور سیاسی شخصیت سینیٹر حاجی عدیل72سال کی عمر میں طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے۔ حاجی محمد عدیل پاکستان کی سیاسی جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے اہم رکن تھے،انھوں نے اپنے سیاسی سفر میں بطور صوبائی وزیرِ برائے خزانہ، ڈپٹی سپیکر اور سینیٹر کی حیثیت سے اہم ذمہ داریاں ادا کیں۔ و ہ ذیابیطس، بلند فشارِ خون کے عارضے میں مبتلا تھے۔

21نومبرکوپاکستان کے مشہور کوہِ پیما حسن سد پارہ راولپنڈی میں انتقال کر گئے۔آکسیجن ٹینک کے استعمال کے بغیر دنیا کی بلندترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کر کے دنیا کے بلند ترین مقام پر سبز ہلالی پرچم لہرا نے والے حسن سدپارہ کا تعلق اسکردو سے تھا جنہوں نے اپنے پروفیشنل کیرئیر کا آغاز 1999 میں قاتل پہاڑ ننگا پربت کی کامیاب مہم سے کیا،2004 میں دنیا کی دوسری بلند چوٹی کے ٹو سر کی اور اس کے بعد براوٹ پیک ، گشہ بروم ون اور کے ٹو سرکر کے پاکستان میں واقع آٹھ ہزار میٹر سے بلند چوٹیوں کو سر کرنے کا منفرد اعزازحاصل کیا اور دنیا میں پاکستان کا سر فخر سے بلند کر کے کوہ پیمائی کی حیران کن تاریخ رقم کردی۔ حسن سد پارہ خون کے کینسر میں مبتلا تھے۔

22نومبر کو معین قریشی 86 برس کی عمر میں واشنگٹن میں انتقال کر گئے۔ معین الدین احمد قریشی جنہیں معین قریشی کے نام سے جانا جاتا تھا ، انھوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجویشن کی اور پھر پنجاب یونیورسٹی سے معاشیات میں ایم اے کیا۔معین قریشی فل برائٹ اسکالر شپ پر امریکا چلے گئے اور 1955 میں انڈیانا یونیورسٹی سے معاشیات میں پی ایچ ڈی مکمل کی۔ پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے بعد وہ 1955 میں پاکستان واپس آئے اور پلاننگ ڈویڑن میں ملازمت اختیار کی تاہم اگلے ہی سال ملازمت سے استعفیٰ دے کر واپس امریکا چلے گئے اور آئی ایف ایم میں ملازم ہوگئے۔وہ 1960 میں گھانا حکومت کے معاشی مشیر مقرر ہوئے۔ اس کے بعد انہوں نے انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن میں شمولیت اختیار کی۔ جہاں وہ 1974 سے 1977 تک اس کے ایگزیکٹو وائس پریزیڈنٹ بھی رہے۔1981 میں انہوں نے عالمی بینک میں شمولیت اختیار کی اور بتدریج اس کے سینئر وائس پریزیڈنٹ آف فنانس مقرر ہوگئے۔ اس عہدے پر وہ 1987 تک فائز رہے جس کے بعد انہیں عالمی بین کا سینئر وائس پریزیڈینٹ بنادیا گیا۔1991 میں انہوں نے ورلڈ بینک کو خیر باد کہہ کر امریکا میں مستقل سکونت اختیار کرلی اور ایمرجنگ مارکیٹ ایسوسی ایٹس نامی کمپنی قائم کی۔وہ 18 جولائی ، 1993ء سے 19 اکتوبر 1993ء تک پاکستان کے نگراں وزیراعظم رہے۔وہ پھیپھڑوں کے عارضے میں مبتلا تھے۔

7 دسمبر کو پاکستان کے معروف اسلامی اسکالر جنید جمشید ایک طیارہ حادثے میں 52سال کی عمر میں اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ جنید جمشید کو دنیا بھر میں گلوکار، نعت خواں اور مبلغ کی حیثیت سے جانا جاتا ہے انہوں نے جس شعبے میں بھی قدم رکھا اس میں ترقی اور شہرت پائی۔ انتیس برس پہلے 1987ء میں دل دل پاکستان سے شہرت حاصل کی، پاپ میوزک کے دور میں ان کے جو البم ریلیز ہوئے ان میں وائٹل سائنزون، وائٹل سائنز ٹو، اعتبار، ہم تم، تمھارا اور میرا نام، اس راہ پر، دی بیسٹ آف جنید جمشید اور دل کی بات شامل تھے۔پندرہ سال تک پاپ میوزک میں کامیابیوں اور دنیا کے مختلف ممالک میں پرفارم کرنے کے بعد جنید جمشید چکا چوند کی دنیا سے مذہب کی جانب راغب ہوئے اور مذہبی تعلیمات نے ان کی کایا پلٹ دی۔ فن کی بلندیوں پر جنید جمشید کا مذہب کی جانب راغب ہونا دنیا بھر کے مسلم حلقوں میں احترام کی نگاہ سے دیکھا گیا۔حکومت پاکستان کی جانب سے 2007 میں جنید جمشید کو تمغہ امتیاز سے بھی نوازا گیا۔جنید جمشید کا پہلا نعتیہ البم دوہزار پانچ میں جلو ہ جاناں کے نام سے منظر عام پر آیا۔ اس کے بعد جنید جمشید کے جو نعتیہ البم ریلیز ہو ئے ان میں محبوب یزداں ، بدرالدجیٰ، یاد حرم، ہادی الانام، رب زدنی علما اور نور الہدیٰ کے نام سر فہرست تھے۔7دسمبر2016کو ایک تبلیغی دورے سے واپسی پر پی آئی اے کے طیارے میں سوار تھے کہ وہ پرواز حویلیاں کے قریب گر کر تباہ ہوگئی جس میں عملے کے پانچ ارکان سمیت تمام 48 افراد ہلاک ہوگئے۔

12دسمبر کو ماضی کے معروف اداکار نذیرعلی عرف رتن کمار امریکا میں انتقال کر گئے، انھوں نے کئی مشہور فلموں میں اپنانام بنایا، ساٹھ کی دہائی کے اوائل میں رتن کمار نے بالی ووڈ فلموں میں چائلڈ اسٹار کے طور پر کام کیا۔انہوں نے راج ساہنی، راج کمار اور دیگر مشہور اداکاروں کے ساتھ کام کیا، سال 1957ء میں وہ پاکستان آگئے اور اپنی پہلی ہی لالی ووڈ فلم معصوم میں بہترین اداکاری سے فلم بینوں کے دل میں گھر کر گئے۔خوبرو اداکاررتن کمار نے ہیرو کی حیثیت سے خلیل قیصر کی سپرہٹ فلم ’’ناگن‘‘ میں بھی کام کیا۔

19دسمبر کواپنی گائیکی سے 4 دہائیوں تک لوگوں کے دلوں پر راج کرنے والی پشتو گلوکارہ معشوق سلطانہ 65 برس کی عمر میں انتقال کر گئیں، وہ کچھ عرصے سے ہیپاٹائٹس کے مرض میں مبتلا تھیں۔معشوق سلطانہ نے لڑکپن میں مقامی شادیوں میں گلوکاری سے فنی سفر کا آغاز کیا، 1962 میں پہلی مرتبہ ریڈیو پاکستان سے باقاعدہ گائیکی کا آغاز کیا جب کہ فنی خدمات پر معشوق سلطانہ کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر 600 ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔موسیقی میں خدمات کے پیش نظر حکومت کی جانب سے 1997 میں معشوق سلطانہ کو صدارتی ایوارڈ ستارہ امتیاز سے نوازا گیا جب کہ 40 سالہ فنی خدمات کے اعتراف میں گورنر خیبرپختونخوا نے 5 لاکھ روپے انعام بھی دیا۔

موت برحق ہے، ہر کسی کو اس دنیا کے میلے کو خیرباد کہنا ہے ۔ وہ چلے گئے لیکن اپنے دوست احباب اور چاہنے والوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ وہ اور ان جیسے تمام افراد جن سے ہماری شناسائی نہیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ رب العزت مرحومین کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبرجمیل کی دولت سے مالا مال کردے ۔آمین

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website