اور پھر اس پر عمل بھی بہت برے طریقے سے کیا گیا اور اس کی پردہ پوشی تو تاریخ میں سب سے بری تھی۔انہوں نے کہا کہ جس کسی نے بھی اس کی منصوبہ بندی کی تھی وہ بہت مشکل میں ہوگا اور اس کو ہونا بھی چاہیے۔واضح رہے کہ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے پہلی بار سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بارے میں براہ راست بیان دیتے ہوئے عہد کیا کہ اس جرم میں ملوث تمام ‘مجرموں’ کو سزا دی جائے گی۔ریاض میں کاروباری شخصیات کے لیے منعقد کی گئی ’فیوچر انویسٹمینٹ انیشی ایٹو‘ نامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سعودی ولی عہد نے کہا کہ ‘یہ جرم تمام سعودیوں کے لیے باعث تکلیف ہے لیکن وہ ترکی کے ساتھ کبھی بھی تعلقات خراب ہونے نہیں دیں گے۔’انھوں نے مزید کہا کہ ‘یہ نہایت ہی گھناؤنا جرم ہے اور اس کی کوئی معافی نہیں ہے’ اور ساتھ ساتھ عہد کیا کہ ‘وہ تمام لوگ جو اس جرم میں ملوث ہیں ان سب کو سزا ملے گی اور انصاف کا بول بالا ہوگا۔’ترکی سے تعلقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ان سے روابط اچھے ہیں لیکن ‘چند افراد ان حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دونوں ممالک کے تعلقات کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن میرا ان کے لیے پیغام ہے کہ وہ ایسا کبھی نہیں کر سکیں گے۔’دو اکتوبر کو استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں ہونے والے اس قتل کے حوالے سے سعودیوں نے مسلسل اس الزام کی تردید کی ہے کہ سعودی شہزادے کا اس میں کوئی عمل دخل تھا۔حکومت کی جانب سے کہا گیا کہ چند ‘سرکش ایجنٹ’ اس قتل کے ذمہ دار ہیں اور اس سلسلے میں دو اعلی افسران کو برخاست کر دیا گیا جبکہ 18 افراد کو حراست میں لے لیا گیا۔منگل کو ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے ترک پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سعودی حکومت کے ناقد جمال خاشقجی کا قتل سیاسی بنیادوں پر ہوا ہے جس کی بھرپور تیاری کی گئی تھی۔منگل کو ہی شہزادہ محمد بن سلمان نے اپنے والد شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے ہمراہ جمال خاشقجی کے خاندان کے افراد سے ملاقات کی تھی جس میں سعودی صحافی کے بیٹے بھی شامل تھے۔33 سالہ محمد بن سلمان کو سعودی عرب کا حقیقی سربراہ سمجھا جاتا ہے اور ان کے حمایتیوں کا کہنا ہے کہ وہ قدامت پسند ملک کو جدید راہ پر گامزن کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔لیکن دوسری جانب ان کے ناقدین ان کو قطر اور یمن کے بحران کا ذمہ دار ٹھیراتے ہیں اور جمال خاشقجی کے قتل کے بعد کئی نے مطالبہ کیا تھا کہ انھیں ہٹا دیا جائے۔