لاہور; عام انتخابات سے قبل ہی مسلم لیگ ن کے کئی رہنما پارٹی کو خیرباد کہہ چکے ہیں جس کی وجہ سے پارٹی کو خاصا نقصان پہنچا ہے۔ لاہور میں ن لیگ کے باغیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے تخت لاہور کو بچانے کے لیے سر جوڑ لئے ہیں۔
لاہور کو مسلم لیگ ن کا گڑھ سمجھا جاتا تھا لیکن اب پارٹی کے اسی گڑھ سے پارٹی کو اختلافات اور مشکلات کا سامنا ہے۔پارٹی کو بچانے کے لیے کئی کئی سال تک یاد نہ آ نے والے ن لیگی ورکرز کو بلوا کر ملاقاتوں کے سلسلے شروع کر دیئے گئے ہیں جبکہ مختلف یونین کونسلز کے چیئرمینوں ،وائس چیئرمینوں اور کونسلرز کو بھی پاکستان تحریک انصاف میں جانے سے روکنے کے لیے اہم رہنماؤں کو ٹاسک سونپ دئے گئے ہیں۔لاہور کے بڑے حلقوں این اے 125،،124،135،136،126،سے اہم ن لیگیوں کی پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اور مزید کی متوقع شمولیت کے پیش نظر بھی مسلم لیگ ن کے اہم رہنماؤں نے اپنے اپنے حلقوں کو بچانے کے لیےکوششیں تیز کر دی ہیں۔ذرائع کے مطابق ن لیگ کے کئی اُمیدواروں نے اپنی قیادت کو یہاں تک کہنا شروع کر دیا ہے کہ اگر نوازشریف فوری پاکستان نہ آ ئے اور محاذ کو نہ سنبھالا گیا تولاہور میں ن لیگ اپنی پوزیشن کھو دے گی ۔ کئی ن لیگی امیدواروں نے تو حلقوں میں صرف اپنے اپنے ووٹ کے لیے کوششیں شروع کر دی ہیں اور یہ کہنا بھی شروع کر دیا ہے کہ اپنا اپنا الیکشن ہے اس لئے اپنے اپنے حلقوں میں ہی لڑیں گے ۔
لاہور میں شہباز شریف،، حمزہ اور مریم کے حلقوں میں پہلے جو دیگر امیدوار بھی جا کر انتخابی مہم چلا رہے تھے اب انہوں نے بھی وہاں جانا چھوڑ دیا ہے۔ حمزہ کےحلقہ این اے 124،، مریم کے حلقہ این اے 127اور شہباز شریف کے حلقہ این اے 132میں ن لیگ جو بالکل مطمئن بیٹھی تھی، وہاں اب مسلم لیگ ننے زیادہ توجہ دینا شروع کر دی ہے ۔ ن لیگی رہنماؤں کے ایک اجلاس میں موجودہ صورتحال پر غور کیا گیا اور کہا گیا کہ اگر یہی صورتحال رہی تومسلم لیگ ن عامانتخابات 2018ء میں لاہور کے 8 سے 9 حلقوں سے ہار سکتی ہے ۔حال ہی میں مسلم لیگ ن کے بانی رہنما ظفر علی شاہ نے بھی پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کیا ہے جس سے پارٹی کو مزید دھچکا لگا ہے ، یہی وجہ ہے کہ بچے کھُچے رہنماؤں اور اُمیدواروں کو پارٹی میں روک کر رکھنے کے لیے سینئیر رہنماؤں کو ٹاسک دے دیا گیا ہے تاکہ کسی طرح الیکشن کا وقت گزار لیا جائے۔