پولیس کو غیرسیاسی اور پیشہ وارانہ فورس بنائے بغیر دہشت گردی اور بڑے جرائم کی روک تھام ممکن نہیں، یہی فورس دیرپا امن کی ضامن ہے کیونکہ اسی نے روزمرہ مسائل کو نمٹانا ہوتا ہے،تاہم ستم ظریفی یہ ہے کہ گزشتہ چند عشروں سے پولیس پر مکمل طور پر سیاسی رنگ غالب آ گیا ہے وہ سیاسی مفادات کے تحفظ کیلئےہی استعمال ہوتی ہے۔ یہ پولیس غیر سیاسی کیسے ہوگی اور جب ہم یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ اسے غیر سیاسی کیا جائے تو اس سے ہمارا مطلب کیا ہے۔
بعض اخباری اطلاعات کے مطابق پولیس بذات خود اغواء برائے تاوان اوردیگر جرائم میں ملوث تھی۔ یہ بھی درست ہے کہ یہ ایک اہم فورس جسے کڑی تنقید کا بھی سامنا رہتا ہے۔ امن وامان صوبائی معاملہ ہے اور پولیس صوبائی حکومت کے ماتحت ہوتی ہے تاہم ایس پی سے آئی جی رینک کے افسروں کی تعیناتی وفاقی حکومت کرتی ہے اور یہ افسر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو جواب دہ ہوتے ہیں۔
وزیراعلیٰ ان افسروں میں سے کسی کو معطل کرنا چاہے تو چیف سیکرٹری کو سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ سے اجازت لینا ہوتی ہے۔ اس سے اکثر صوبہ اور وفاق میں کشمکش بھی رہتی ہے۔ حال ہی میں آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کے معاملہ بھی ایسا ہی ہوا ۔خیبر پختونخوا کے علاوہ کسی دوسرے صوبہ میں پولیس اصلاحات کا کام نہیں ہوا۔ کے پی میں آئی جی کو جو اختیار حاصل ہیں وہ کسی اور آئی جی کو نہیں۔ آئی جی کے پی نہ صرف انتظامی اختیارات رکھتے ہیں بلکہ وہ مالی معاملات میں بھی خود مختار ہیں۔ کے پی میں پولیس آرڈر 2002ءکے بجائے پولیس ایکٹ 1861ء پھر سے نافذ العمل کر دیا گیا ہے۔
متعدد سینئر سابق پولیس افسروں نے کے پی میں پولیس کے نظام کو سراہا ہے۔ دیگر تین صوبوں میں معاملہ مختلف ہے۔ پنجاب پولیس کی پیشہ ورانہ صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے مگر وہ بہت زیادہ سیاسی اثر ورسوخ کے نیچے کام کرتی ہے۔ ماڈل ٹائون انکوائری اس کی اہم مثال ہے، آخر پولیس نے کس کے حکم پر فائر کیا۔ کیا یہ سیاسی فیصلہ تھا یا انتظامی؟بہر حال پولیس کو قربانی کا بکرا بنایا گیا۔ سیاسی جماعتیں اسی طرح پولیس کو اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے استعمال کرتی ہیں۔
بلوچستان پولیس کی عمل داری کوئٹہ تک محدود ہے یہ ایک تشویش ناک بات ہے اسے بہر حال اپنی ذمہ داری ضرور ادا کرنی چاہیے چاہے صورتحال کیسی بھی کیوں نہ ہو۔
سندھ میں بھی پولیس کی حالت زار تسلی بخش نہیں ہے۔ سندھ میں پولیس کی حالیہ بھرتی تو شفاف انداز میں ہوئی ہے، تاہم سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب اور مرمت کا کام بغیر کسی ٹینڈر کے کرایا گیا ۔سندھ حکومت کی ایک اور حیران کن پالیسی بھی سامنے آئی ہےجس کے مطابق بعض پسندیدہ پولیس افسروں اور ڈی ایم جی افسروں کو ڈیفنس میں مشکوک سے معاہدوں کے بعد رہائشی پلاٹس دیئے گئے ہیں۔پولیس شہداء کے لواحقین تاحال اپنے قانونی استحقاق اور رہائشی پلاٹوں کے منتظر ہیں۔
یہ ایک حیران کن پالیسی ہے جس پر گزشتہ حکومت عمل پیرا رہی اور موجودہ حکومت بھی اس پر گامزن ہے۔ہمیں اس پر حیران نہیں ہونا چاہیے کہ کراچی کا امن و امان رینجرز کے حوالے رہا جبکہ پولیس سیاسی مقاصد کیلئے استعمال ہوتی رہی ۔
معتبر ذرائع نے بعض انکشافات کرتے ہوئے بتایا کہ پولیس خاص طور پرسندھ پولیس غیر سیاسی نہیں ہو سکتی وہ بھی ان حالات میں قابل توجہ ہے کہ پولیس اور ڈی ایم جی کے مذکورہ افسروں نے وفاق سے بھی رہائشی پلاٹ حاصل کر رکھے ہیںلہٰذا وہ اپنی وفاقی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ صوبائی حکام سے کیسے بے وفائی کر سکتے ہیں۔
ایک ریٹائر سینئر پولیس افسر نے بتایا کہ انہوں نے بھی مذکورہ سکیم کے تحت پلاٹ حاصل کیا تھا۔یہ اور ان کی طرح کے دیگر کئی افسر جو سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی کی قیادت کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتے ہیں ۔انہوں نے مذکورہ’’بارٹر سکیم‘‘ سے فائدہ اٹھایا۔
سوال یہ ہے کہ ان افسروں کو سندھ ہائوسنگ فائونڈیشن کے ذریعے پلاٹ کیوں نہ دیئے گئے کیا وزیراعلیٰ کے پاس یہ اختیار ہےاور سب اہم بات یہ کہ یہ پلاٹ دینے کیلئے میرٹ کیا تھا۔
ذرائع کے مطابق یہ سارا معاملہ نیب کے علم میں ہے ستم ظریقی تو یہ ہے کہ وفاقی حکومت کی غیر سنجیدگی کے باعث چاروں صوبوں میں ایک جیسا پولیس آرڈر نافذ العمل نہیں۔
قیام امن کیلئے یہ نہایت ضروری ہے کہ ہم رینجرز اور ایف سی پر اربوں روپے خرچ کرنے کے بجائے پولیس کو غیر سیاسی فورس بنائیں۔
پولیس افسر آئی جی اور نیشنل پبلک سیفٹی کمیشن کو جوابدہ ہوں نہ کہ کسی وزیر، ایم این اے یا ایم پی اے کو۔ حتیٰ کہ مارشل لاء دور میں پولیس کو سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا گیا۔