میں نے ڈاکٹر عالم سے کہا کل عدالت میں میری پیشی ہے آپ ہی پیروی کر سکتے ہیں۔ تیوری چڑھا کر بولے ناممکن، ناممکن، ناممکن۔مجھ پرتوجیسے بجلی گر پڑی میں سکتے میں آ گیا۔یہ وہی ڈاکٹر عالم تھے جن کا الیکشن خطیبانہ حد تک مَیں نے لڑا اورجیتا۔ الیکشن کے دوران احرار جیسے عدیم المثال خطیبوں کا مقابلہ کیا۔جہلم وگجرات کے جلسے سر کئے۔راولپنڈی کا محاذ فتح کیا، جلالپور جٹاں میں تلوارکازخم سہا اور ان سے پھوٹی کوڑی تک نہ لی۔جواب سن کرآنکھوں میں آنسو آ گئے، لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا باہر آ گیا۔میرے کان سُن رہے تھے کہ ڈاکٹرعالم کابھائی نظام الدین کہہ رہا تھا عالم تمہیں ایسا کورا جواب نہیں دینا چاہئے تھا اور ڈاکٹر صاحب بول رہے تھے ’’بھائی جی پانچ سال بعد پھر دیکھا جائے گا‘‘۔گو کہ یہ واقعہ آج سے 73سال پہلے کا ہے، لیکن عزائم وارادے،سوچ و فکر، کردار گفتار کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے جیسے یہ واقعہ آج ہی رونما ہوا ہے، جس طرح اس وقت اسمبلیوں میں جانے والے عوام کو بیوقوف بناتے تھے آج بھی اسی طرح بیوقوف بنانے کا سلسلہ جاری ہے۔شورش مرحوم اپنی کتاب ’’بوئے گل نالہ دل دودِ چراغ محفل‘‘میں مزید لکھتے ہیں: ’’ڈاکٹرعالم عجیب و غریب انسان تھے۔دماغ کے غنی اوردل کے غبی، اپنے سوا کسی کے وفادارنہ تھے۔
حلف سے الٹی بات کرتے، سیدھی بات جانتے ہی نہ تھے۔ اپنی ذات میں اتنے محصورتھے کہ اس کے سواکسی عقیدے،کسی خیال،کسی جماعت،کسی رہنمااورکسی مسلک کے وفادارنہ تھے۔ان کاسیاسی شعورآصف علی اورڈاکٹرسیدمحمودسے کہیں بلندتھا،لیکن قانع اور صابرنہ تھے۔حرص نے ان کوکٹی ہوئی پتنگ بنا دیا۔طمع نے ان کی زندگی کواتناکھوٹاکیاکہ آخر کچوکوں کی تاب نہ لاتے ہوئے قبل ازوقت رحلت کر گئے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔قائداعظم نے یونی نیسٹ پارٹی کے جن ارکان کو بلواکرلیگ میں شامل کرنا چاہا ان میں ڈاکٹرعالم بھی تھے۔قائداعظم نے ان سے کہا: ’’عالم۔۔۔اسمبلی میں لیگ باقاعدہ پارلیمانی پارٹی بن گئی ہے اس میں شامل ہو جاؤ۔ڈاکٹر صاحب نے جواباً کہا سوچنے کے لئے وقت درکار ہے‘‘۔قائداعظم نے فرمایاعالم! کسی پارٹی میں آنے جانے کے لئے کیا تمہیں بھی سوچنے کی ضرورت ہے‘‘۔ڈاکٹرعالم اصلاً سوانگ رچانے کے ماہرتھے مثلاًپیرجماعت علی شاہ کاان کے دل میں رتی بھراحترام نہ تھا،لیکن مسجدشہیدگنج تحریک کے دِنوں میں ان کے سامنے اس طرح ہوتے جس طرح برہمن اپنے بت کے سامنے ہوتاہے۔یہی ذہنی عیاریاں تھیں جن کی بدولت ڈاکٹرعالم عبرت کاورق ہوکرغفرلہ ہوگئے۔ڈاکٹر عالم کو لوٹے کا خطاب کیسے ملا؟ اس بارے میں آغاشورش کاشمیری لکھتے ہیں: ’’اس پھبتی کے مصنف علامہ حسین میر کاشمیری تھے جوروزنامہ زمیندارکے مدیرمخابرات تھے۔علامہ صوبائی محکمہ اطلاعات کی معرفت لاہورریڈیوکے لئے پنجابی پروگرام کی خبریں تیارکرتے تھے۔
ڈاکٹرصاحب نے کسی پھبتی سے برافروختہ ہوکرانہیں نکلوا دیا۔ نتیجے میں علامہ حسین میر نے زمیندارمیں ایک خبر گھڑی، جس کاعنوان تھا: ’’ڈاکٹر لوٹا‘‘ اور ڈاکٹر لوٹا کی پھبتی آناً فاناً زبان زدعام ہوگئی۔ڈاکٹرعالم جہاں جاتے ان کااستقبال لوٹوں سے کیاجاتاحتی کہ پولنگ سٹیشن پربھی لوگوں نے لوٹے لٹکا دیئے۔ لاہورمیں مزنگ روڈ پران کی کوٹھی تھی، منچلوں نے ایک باران کی کوٹھی پرلوٹوں کوجھنڈیوں کی طرح سجادیا۔آخر اسی صدمے سے نڈھال ہوکراللہ کو پیارے ہوگئے۔‘‘شورش کاشمیری نے ڈاکٹرعالم کے بارے میں ایک اورعبرتناک واقعہ لکھاہے۔ ’’ایک رات ڈاکٹرعالم کے گھرمیں تھا۔علی الصبح اٹھا تو ڈاکٹر عالم ایک عورت سے جھگڑ رہے اور کہہ رہے تھے ’’دو روپے ٹھیک ہیں، بس اب بھاگ جاؤ‘‘۔ جواب میں عورت کہہ رہی تھی: ’’ڈاکٹرصاحب آپ نے پچاس روپے کا وعدہ کیا تھا‘‘۔ڈاکٹر صاحب عورت کے اصرار پر جھنجلا گئے، انہیں ڈرتھاکسی نے دیکھ لیا تو رسوائی ہو گی۔مولانا عبدالقادر قصوری برآمدے میں صبح کی نمازپڑھ رہے تھے۔ڈاکٹرصاحب نے عورت سے کہا: ’’ڈاکٹرصاحب تووہ سامنے مصلی پر نمازپڑھ رہے ہیں میں توان کامنشی ہوں۔بھاگ جاؤ ورنہ ڈاکٹرصاحب ہم دونوں کو قید کروا دیں گے۔غرض وہ عورت شب کامعاوضہ دوروپے لے کرچلی گئی اورمیں یہ لطیفہ سمیٹ کرگھرآگیا‘‘۔ڈاکٹرعالم کی وفات بھی مرقع عبرت ہے۔ ہوا یہ کہ ان کے باربارسیاسی آشیانے بدلنے کی وجہ سے لوٹے کاخطاب ان کے لئے جان لیواثابت ہوا۔ لوٹے کالفظ ان کے لئے گالی اورجان لیوا بیماری بن گیا،وہ اسی غم میں عالم بالا کو سدھار گئے۔بہرحال یہ بات طے ہے کہ ڈاکٹرعالم ہمارے آج کے سیاست دانوں سے پھربھی مختلف تھے جولوٹے کاطعنہ برداشت نہ کرسکے، جبکہ ہمارے آج کے سیاست دانوں کو لوٹاکہاجائے توخوشی سے سینہ پہلا لیتے ہیں