تمہیں یہ رسک لینے کی کیا ضرورت تھی؟ مجرم نے قہقہہ لگا کر جواب دیا‘ پہلی بات یہ ہے مجھے دو سال مل گئے ہیں‘ ان دو سالوں میں ہو سکتا ہے بادشاہ مر جائے‘ ہو سکتا ہے میں مر جائوں اور یہ بھی عین ممکن ہے گھوڑا اڑنا سیکھ جائے۔یہ واقعہ زندگی گزارنے کی شان دار تکنیک ہے‘ میں ہر مصیبت‘ ہر مشکل میں یہ واقعہ یاد کرتا ہوں اور مجرم کی طرح ٹائم گین کرنے کی کوشش کرتا ہوں‘ آپ یاد رکھیں مشکل سے نبٹنے کا سب سے بہترین طریقہ ٹائم ہے‘ ٹائم گین کریں‘ ٹائم انسان کو بڑے بڑے بحرانوں سے نکال لیتا ہے‘ آپ کے خلاف مقدمہ بن گیا‘ ٹائم گین کریں‘ نوکری جا رہی ہے‘ ٹائم گین کریں‘ انکوائری چل رہی ہے‘ ٹائم گین کریں‘ کوئی چیز بیچنی ہے ٹائم گین کریں‘ آپریشن کرانا ہے اگر ایمرجنسی نہیں تو ٹائم گین کریں‘ وعدہ توڑنا ہے‘ پارٹنر شپ ختم کرنی ہے‘ طلاق دینی ہے‘ بچے کی تعلیم بند کرنی ہے۔وینٹی لیٹر پر پڑے مریض کی نلکیاں اتارنی ہیں‘ خودکشی کرنی ہے‘ لڑائی کرنی ہے یا پھر مرنا یا مارنا ہے‘ ٹائم گین کریں‘ آپ یہ بات پلے باندھ لیں زندگی کے ہر برے‘ غلط اور منفی فیصلے سے پہلے ٹائم گین کریں‘ کوئی تعلق‘ کوئی رشتہ‘ کوئی معاہدہ‘ کوئی وعدہ توڑنے سے پہلے بھی ٹائم گین کریں‘ آپ کبھی نقصان میں نہیں رہیں گے‘ آپ بس گھوڑے پالنے والے اس شخص کی طرح سوچیں ہو سکتا ہے کل مجھے سزا دینے والا دنیا میں نہ ہو‘ یہ بھی ہو سکتا ہے کل میں دنیا میں نہ ہوں اور یہ بھی عین ممکن ہے گھوڑا اڑنا سیکھ جائے۔ہو سکتا ہے ہم آج جس چیز کو ناممکن سمجھ رہے ہوں یہ کل کو گاڑی‘ جہاز‘ موبائل فون اور اینٹی بائیوٹک کی طرح عین ممکن ہو چکی ہو چناں چہ آپ بس ٹائم گین کریں‘ اللہ سے مدد کی دعا کریں اور پھر اس فارمولے کا اثر دیکھیں‘ آپ گھوڑے کو اڑتا ہوا دیکھیں‘ یہ بظاہر عام سے واقعات ہیں لیکن لوگ دھڑا دھڑ یہ سن رہے ہیں‘ کیوں؟ میں وجہ نہیں سمجھ پا رہا۔(ش س م)
لاہور (ویب ڈیسک) مائینڈ چینجر کے پیچھے بھی ایک دل چسپ کہانی ہے‘ میں نے پندرہ سال قبل ’’سیلف ہیلپ‘‘ اور موٹی ویشن کا کام سیکھنا شروع کیا‘ نیویارک سے ’’پرسیپشن‘‘ کا چھوٹا سا کورس کیا‘ ہمارا ٹرینر مائینڈ سائنسز کا ایکسپرٹ تھا‘ وہ ہمارے سامنے کھڑا ہوا‘ ایک نوجوان کو بلایا اور اس سے پوچھا ’’
نامور کالم نگار جاوید چوہدری اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔تم نے جو پہن رکھا ہے اس کی قیمت بتائو‘‘ نوجوان نے عینک سے شروع کیا اور جوتوں اور جرابوں تک آ گیا۔پتہ چلا اس نے اپنے بدن پر آٹھ سو ڈالرز کی اشیاء چپکا رکھی ہیں‘ ٹرینر نے اس کے بعداس سے پوری ’’وارڈروب‘‘ کی مالیت پوچھی‘ نوجوان نے سوچ کر جواب دیا‘ میرے پاس دس ہزار ڈالر کے کپڑے اور جوتے ہوں گے‘ ٹرینر نے ہاتھ کی چُھری بنائی اور اپنی شہ رگ پر رکھ کر بولا ’’ہم اپنی زندگی میں جتنی رقم گردن سے نیچے خرچ کرتے ہیں ہم اگر اس کا دس فیصد حصہ گردن سے اوپر خرچ کر دیں تو ہماری زندگی بدل جائے‘‘ ۔ٹرینر کا کہنا تھا ’’ہم سافٹ ویئر پر کم اور ہارڈ ویئر پر زیادہ رقم خرچ کرتے ہیں اور یوں ہم زندگی میں پیچھے رہ جاتے ہیں‘ ہمارے نوے فیصد ایشوز ذہنی ہوتے ہیں‘ ہمیں ان پر رقم خرچ کرنی چاہیے جب کہ ہم اس کے بجائے اپنی ظاہری زندگی پر پیسہ خرچ کرتے رہتے ہیں‘‘ ٹرینر نے کہا ’’ہم اگر اپنی قسمت بدلنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں اپنا مائینڈ چینج کرنا ہو گا‘ ہمارا مقدر خود بخود بدل جائے گا‘‘۔یہ فقرہ سیدھا میرے دل پر لگا اور میں نے فیصلہ کر لیا میں کبھی نہ کبھی مائینڈ چینجر کے نام سے کام ضرور کروں گا‘ تیمور حیدر میرے بیٹوں کا دوست ہے‘ یہ میرے قابو آ گیا‘ میں نے اس کے ساتھ مل کر اس سال مئی میں مائینڈ چینجر کے نام سے یو ٹیوب چینل بنا لیا‘
یہ سیلف ہیلپ اور موٹی ویشن کا چینل ہے‘ ہم نے اب تک اس پر 48 ویڈیوز ’’اپ لوڈ‘‘ کیں اور ان کے حیران کن نتائج نکلے‘ یہ نتائج میرا موضوع نہیں ہیں‘ میرا موضوع مائینڈ چینجر کی ایک درمیانے درجے کی ویڈیو ہے۔ہم نے ایک ماہ قبل گوگل کے گلوبل سی ای او سندر پچائی سے متعلق ایک ویڈیو اپ لوڈ کی‘ سندر پچائی دنیا میں سب سے زیادہ معاوضہ لینے والا ملازم ہے‘ یہ روزانہ ساڑھے تین کروڑ روپے تنخواہ لیتا ہے‘ ویڈیو میں سندر پچائی کے دو اور کسی نامعلوم گھوڑے پالنے والے کی زندگی کا ایک واقعہ شامل تھا‘ ویڈیو کا حیران کن نتیجہ نکلا‘ یہ ایک ماہ میں دس لاکھ لوگوں نے دیکھی‘ وجہ کیا ہے؟ ہمیں سمجھ نہیں آئی‘ میں اس ویڈیو کے دو واقعات آپ کے سامنے رکھتا ہوں‘ آپ پڑھیں شاید آپ کو سمجھ آ جائے۔سندر پچائی کھانا کھا رہے تھے‘ اچانک ایک کاکروچ آیا‘ اڑا اوراڑ کر ایک خوب صورت خاتون کے کوٹ پر بیٹھ گیا‘ خاتون نے اچھل کر چیخنا شروع کر دیا‘ ریستوران میں پینک ہو گیا‘ کاکروچ بھی پینک میں آگیا‘ وہ اس خاتون کے کوٹ سے اڑا اور دوسری خاتون کے کندھے پر بیٹھ گیا‘ دوسری خاتون بھی اٹھ کر کودنے اور چیخنے لگی‘ پورے ریستوران میں ہنگامہ ہو گیا‘ لوگوں میں خوف و ہراس پھیل گیا‘ ایک ویٹر یہ منظر دیکھ رہا تھا‘ وہ دوڑ کر خواتین کی مدد کے لیے آیا‘ وہ قریب پہنچا تو کاکروچ نے ایک اور فلائیٹ لی اور وہ سیدھا ویٹر کی جیب پر آ کر بیٹھ گیا‘ سندر پچائی یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے۔
انھوں نے کھانا چھوڑا اور اپنی ساری توجہ ویٹر‘ کاکروچ اور چیختی ہوئی خواتین پر لگا دی‘ سندر پچائی نے دیکھا کاکروچ جوں ہی ویٹر کی جیب پر بیٹھا‘ ویٹر نے سب سے پہلے ٹیڑھی آنکھ سے کاکروچ کے ’’بی ہیویئر‘‘ کا جائزہ لیا‘ ساکت کھڑے کھڑے جیب سے ٹشو پیپر نکالا‘ ٹشو کے ساتھ کاکروچ پکڑا اور اسے لے کر ریستوران سے باہر نکل گیا‘ سندر پچائی نے اس واقعے اور اس ویٹر سے اپنی زندگی کا شان دار ترین سبق سیکھا‘ ان کا کہنا تھا‘ میں نے دیکھا کاکروچ خواتین اور ویٹر دونوں کے لیے ایک تھا بس دونوں کا کاکروچ سے ڈیل کرنے کا طریقہ مختلف تھا۔خواتین نے اچھلنا‘ کودنا اور چیخنا شروع کر دیا تھا جب کہ ویٹر نے چیخنے چلانے کے بجائے کاکروچ پکڑا اور باہر پھینک دیا‘ میں نے دونوں کے رویوں کا جائزہ لیا تو پتہ چلا خواتین نے کاکروچ دیکھ کر ری ایکٹ کرنا شروع کر دیا تھا جب کہ ویٹر نے کاکروچ کو ریسپانڈ کیا تھا۔ سندر پچائی نے کہا دنیا کے مسائل بھی کاکروچ کی طرح ہوتے ہیں‘ یہ سب کے لیے ایک جیسے ہوتے ہیں بس ہم میں سے کچھ لوگ ان پر ری ایکٹ کر کے ماحول میں تشویش پیدا کر دیتے ہیں جب کہ تھوڑے سے لوگ ریسپانڈ کر کے مسئلہ حل کر دیتے ہیں لہٰذا ہم اگر زندگی میں کام یاب ہونا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں یہ ماننا ہو گا دنیا میں باس ایشو نہیں ہوتے۔کام‘ ٹریفک‘ مہنگائی‘ پلوشن‘ حکومتیں‘ ریاستوں کی پالیسیاں‘ ساس بہوئیں‘ داماد‘ بیویاں‘ بچے‘ ہمسائے اور نوکریاں بھی مسئلے نہیں ہیں‘
مسئلہ صرف یہ ہے ہم انھیں ہینڈل کیسے کرتے ہیں‘ ان پر ہمارا ریسپانس کیا ہوتا ہے‘ میںآپ کو یہاں ری ایکشن اور ریسپانس میں فرق بھی بتاتا چلوں‘ ری ایکشن اچانک اور منصوبہ بندی کے بغیر ہوتا ہے جب کہ ریسپانس سوچا‘ سمجھا اورحکمت کے ساتھ ہوتا ہے‘ کاکروچ کو دیکھ کر خواتین نے ری ایکٹ کیا تھا جب کہ ویٹر نے ریسپانڈ کیا تھاچناں چہ آپ زندگی میں ری ایکٹ نہ کیا کریں‘ ریسپانس کیا کریں‘ آپ کام یاب ہو جائیں گے‘ مسئلوں اور مشکلوں سے نہ گھبرائیں‘ یہ زندگی ہیں۔اس پورے کرہ ارض پر صرف ایک جگہ ہے جہاں کوئی مشکل ہے اور نہ مسئلہ اور وہ جگہ ہے قبرستان‘ آپ قبرستان میں جا کر دیکھیں‘ بجلی‘ گیس‘ پٹرول اور پانی کتنا ہی منہگا کیوں نہ ہو جائے قبروں کو کوئی فرق نہیں پڑتا‘ گاڑیاں مہنگی ہو جائیں‘ ٹریفک ڈبل یا ٹرپل ہو جائے‘ ٹیکس بڑھ جائیں‘ شہر کے سیوریج پائپ بلاک ہو جائیں یا دھرنے شروع ہو جائیں قبروں اور مُردوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا‘ دنیا میں صرف یہ وہ جگہ ہے جہاں آپ کا کسی رشتے دار‘ کسی کولیگ اور کسی ہمسائے سے کوئی جھگڑا نہیں ہوتا‘ جہاں کوئی کسی کے ساتھ حسد نہیں کرتا۔آپ زندہ ہیں تو لوگ آپ سے جیلس بھی ہوں گے‘ یہ آپ کو چیلنج بھی کریں گے‘ منہگائی بھی ہو گی‘ چوری بھی ہو گی اور آپ چوکوں میں لٹیں گے بھی‘ حکومتیں بھی بری آئیں گی‘ آپ کے گھر پر نوٹس بھی سرو کیے جائیں گے اور بجلی‘ گیس اور پٹرول بھی منہگا ہو گا اور آپ کا نقصان بھی ہو گا‘
زندہ ہیں تو مسئلے بھی ہیں‘ زندہ ہیں تو مشکلیں بھی ہیں‘ مر جائیں گے تو مشکلیں بھی ختم اور مسئلے بھی غائب چناں چہ مسئلوں سے نہ گھبرائیں‘ ان پر ری ایکٹ بھی نہ کیا کریں‘ آپ صرف انھیں ہینڈل کرنا سیکھیں‘ آپ انھیں حل کریں‘ آپ کی زندگی بدل جائے گی۔آپ اب دوسرا واقعہ بھی سنیے‘ ایک بادشاہ نے مجرم کے لیے سزائے موت کا حکم جاری کر دیا‘ مجرم سزا پانے کے بعد ہاتھ باندھ کر سامنے کھڑا ہو گیا‘ بادشاہ نے فوراً کہا ’’سزا میںکوئی ردوبدل نہیں ہو گا‘‘ مجرم نے گڑگڑا کر عرض کیا ’’بادشاہ سلامت میں آپ سے معافی کی اپیل نہیں کر رہا‘ میں آپ کو بس یہ بتانا چاہتا ہوں آپ صرف مجھے نہیں مار رہے‘ آپ ایک ایسے فن کو بھی قتل کر رہے ہیں جو اس پوری دنیا میں صرف میں جانتا ہوں‘‘ بادشاہ نے حیران ہو کر پوچھا ’’وہ کون سا فن ہے‘‘ مجرم بولا ’’جناب میں دنیا کا واحد شخص ہوں جو گھوڑے کو اڑنا سکھا سکتا ہے‘ میرے بعد یہ فن بھی ختم ہو جائے گا‘‘ بادشاہ نے حیرت سے پوچھا ’’کیا تم واقعی یہ کر سکتے ہو‘‘ مجرم نے جواب دیا ’’جناب میں دو سال میں گھوڑے کو اڑا سکتا ہوں‘‘ بادشاہ نے جلاد کو حکم دیا۔اسے دو سال اور میرا گھوڑا دے دو‘ یہ اگر دو سال میں گھوڑے کو اڑنا نہ سکھا سکا تو تم اس کی گردن اڑا دینا‘ جلاد نے مجرم کو گھوڑا اور دو سال دے دیے‘ مجرم گھوڑا لے کر جیل آیا تو قیدیوں نے اس سے کہا‘ بے وقوف انسان تم اچھی طرح جانتے ہو تم گھوڑے کو اڑنا نہیں سکھا سکو گے‘