لاہور (ویب ڈیسک) جناب ارشد ملک جج کی سوشل میڈیا پر وڈیوز دیکھتے ہوئے مجھے صوفی شاعر میاں محمد بخش کا ایک شعر بہت یاد آیا۔ آپ بھی سن لیں اس میں ایک نہایت اہم ’’سبق‘‘ مضمر ہے، شعر کچھ یوں ہے؎ اک گناہ میرے ماپے ویکھن دیوین دیس نکالا ۔۔ لکھ گناہ میرا اللہ ویکھے پردے پاون والا نامور کالم نگار ڈاکٹر صفدر محمود اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔(ترجمہ میرے والدین میرا ایک گناہ(پاپ)دیکھ لیں تو مجھے گھر سے باہر نکال دیں، میرا رب میرے لاکھوں گناہ دیکھتا ہے اور پردے ڈال دیتا ہے) ظاہر ہے کہ ہمارا رب ہمارے گناہوں پر پردے ڈال دیتا ہے ورنہ شاید معاشرے میں کوئی بھی کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے۔ رحیم و کریم رب رسی دراز کرتا رہتا ہے۔ توبہ کے مواقع بار بار فراہم کرتا ہے۔ بھٹکا ہوا انسان سیدھی راہ پہ آجائے اور توبہ کرلے تو سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں لیکن اگر توبہ کے در سے دور ہوتا چلا جائے اور گناہوں میں ڈوبتا چلا جائے تو پھر ایک دن دراز ہوتی رسی کھینچ لی جاتی ہے۔ پھر وہی حشر ہوتا ہے جو آج ہمارے سامنے ’’عبرت کدہ‘‘ بنا ہوا ہے۔ کل کا ایک معزز اور باوقار افسر چند لمحوں میں نہ صرف عزت اور وقار گنوا بیٹھا ہے بلکہ عوامی نگاہوں میں بھی قابلِ رحم اور مشکوک حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ جس دن محترمہ مریم نواز شریف نے محترم جج ارشد ملک کی وڈیو بےنقاب کی، مجھے ایک مسلم لیگی مہربان کا فون آیا۔ پوچھا کیا خیال ہے بارے اس وڈیو کے؟ میرا سیدھا سا جواب تھا کہ اپنے طویل انتظامی تجربے کی بنا پر قدرے صبر اور انتظار کے اصول کا قائل ہوں۔ نوجوان دوستوں کی مانند قلم کی نوک تیز کر کے چڑھ دوڑنا میرا وطیرہ نہیں۔ میں نے اس طرح کے کئی اسکینڈل دیکھے ہیں اور اپنی کمزوریوں کے سبب کئی لوگوں کو بلیک میل ہوتے دیکھا ہے۔ میرا تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ بلیک میل کی داستان سیدھی سادی کہانی نہیں ہوتی، اس میں بہت سے مقامات، بہت سے کردار اور بہت سے موڑ آتے ہیں۔ اس لئے ذرا انتظار کیجئے بہت کچھ کھلے گا، بہت کچھ ننگا ہوگا، بہت سے کردار پردہ راز سے نکل کر نمایاں ہوں گے اور بالآخر یہ کہانی ایک جاسوسی ناول کی مانند دلچسپ اور چشم کشا بن جائے گی۔ آپ ابھی تک ناصر بٹ اور جنجوعہ کے کارناموں سے باہر نہیں آسکے مجھے ایک اسکینڈل کے پس پردہ کئی اسکینڈل اور ایک بلیک میل کے پسِ پشت کئی بلیک میل نظر آتے ہیں۔ بلیک میل ہونے والا شخص بار بار بلیک میل ہوتا ہے۔ وہ ایک بار اس جال میں پھنس جائے تو پھر کبھی باہر نہیں نکل سکتا۔ ظاہر ہے کہ انسان بلیک میل اپنی کمزوریوں، عادتوں اور شخصی مجبوریوں سے ہوتا ہے۔ ان دونوں وڈیوز میں جہاں آپ کو نائونوش اور ڈانس کے مناظر نظر آئیں گے وہیں کچھ چہروں کی جھلک بھی آنکھوں کی رونق بنے گی۔ اللہ معاف کرے، پینے پلانے اور عیاشی کی لت ہمیشہ انسان کا خانہ خراب کرتی اور ذلت و رسوائی کا سبب بنتی ہے لیکن اس کے باوجود اس میں اس قدر کشش اور طاقت ہوتی ہے کہ جو ایک بار اس کا اسیر ہو جائے وہ شاید کبھی بھی اس سے رہائی نہیں پا سکتا۔ ہاں اللہ پاک توفیق دیں اور توبہ کی آغوش میں لے لیں تو اور بات ہے ورنہ بقول شاعر؎ چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی یہ درست کہ پہلی وڈیو ہمارے نظام انصاف اور عدالتی سسٹم پر خودکش حملے کی مانند ہے جس نے عدالتی اعتماد کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ میرے طالبعلمانہ نقطہ نظر کے مطابق اس معاملے کے کئی پہلو غور طلب ہیں، ذہن میں رہے کہ یہ ساری کہانی ہی بلیک میل کی کہانی ہے جو بلیک میل سے شروع ہو کر بلیک میل پہ ختم ہوتی ہے۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ ابھی بہت کچھ مزید بھی سامنے آئے گا، نئے نئے انکشافات ہوں گے اور غور و فکر کی نئی راہیں کھلیں گی۔ یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ یہ محض ایک کردار کی کہانی نہیں، اس طرح کے انگنت کردار ہمارے نظام میں موجود ہیں جن پر پردہ پڑا ہوا ہے۔ ماشاء اللہ ہماری قوم میں ایسے ایسے کاریگر اور فنکار لوگ بھی موجود ہیں جو بلیک میلنگ کے فن میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ آج کے تازہ انکشافات میں ملتان کے میاں برادران، ان کا بلیک میلنگ کا وسیع جال، منشیات کا کاروبار، ایک بھائی کو سزائے موت اور دوسرے صاحب جج کو بلیک میل کر کے اسے رہائی دلوانا اور چرس کو جلانا اور انہی میں سے ایک کردار کا اس قیمتی وڈیو کو چند کروڑ روپے کے عوض ضرورت مند سیاسی گھرانے کے ہاتھوں فروخت کر کے نفع کمانا محض آغاز ہے، اس سلسلے کا انجام نہیں۔ ابھی بہت سے ہوشربا واقعات ہاتھ باندھے اپنی باری پر بےنقاب ہونے کے منتظر ہیں۔مقام عبرت ہے کہ جج ارشد ملک طویل عرصے سے بلیک میل ہورہا تھا۔ بلیک میل کرنے والے اس کے جج بننے سے قبل بھی وڈیوز بناتے رہے تھے اور ان میں سے ایک شخص کا دعویٰ تھا کہ وہ اس کی سفارش پر جج بنایا گیا۔ عدلیہ میں شمولیت کے بعد پرانے بلیک میلر دوستوں سے تعلقات منقطع کرنے کے بجائے وہ ان کی مہمان نوازی سے فیض یاب ہوتے رہے۔ دعویٰ یہ بھی ہے کہ دوستی کی بنا پر مقدمہ ان کی عدالت میں ٹرانسفر کروایا گیا تاکہ من پسند فیصلہ لیا جاسکے۔ جج صاحب نے اس وڈیو میں خود انکشاف کیا ہے کہ ان کو ان کی پرانی وڈیوز دکھا کر بلیک میل کیا گیا اور ان سے میاں نواز شریف کے خلاف فیصلہ لیا گیا۔ اس کا مطلب ہے کہ ان کے کارنامے ہماری ایجنسیوں کے علم میں تھے لیکن حیرت ہے کہ ان ایجنسیوں کو جج صاحب کی حسین نواز یا میاں نواز شریف سے ملاقات کا علم نہ ہو سکا۔ جج صاحب کے اس بیان کے بعد میاں صاحب کو دی گئی سزا انصاف کے پیمانے پر پوری نہیں اترتی۔ کچھ ہماری نیب کا بھی کمال ہے کہ اس نے احتساب کو انتقام بنادیا ہے جس نے سزائوں پر سوالات اٹھا دئیے ہیں۔ ناصر بٹ اور جنجوعہ کی بلیک میلنگ جج صاحب کو عمرہ کے دوران حسین نواز کے پاس لے گئی، اسی بلیک میلنگ کے تحت انہوں نے میاں صاحب سے ملاقات کی جس کا انکشاف ان کے عدالت میں پیش کردہ بیان سے ہوا ہے۔ گویا یہ ایک کے بعد دوسرے، تیسرے بلیک میل کی پیچیدہ کہانی ہے جس کے کئی پہلو بےنقاب ہونا باقی ہیں۔ مقدمہ عدالت میں جا چکا اس لئے مزید کچھ کہنا مناسب نہیں ماسوا اس کے کہ یہ عبرت کی کہانی ہے اور عبرت بھی صرف انہی کے لئے جنہیں اللہ توفیق دے۔ البتہ وزارت قانون، عدلیہ اور قانون و انصاف کے رکھوالوں کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ وہ ججوں کے طریقہ انتخاب پر غور کریں۔ طریقہ انتخاب میں دراڑیں ہیں یا جان بوجھ کر ایسے کمزور کرداروں کو منتخب کیا جاتا ہے جن سے بعدازاں ضرورت پڑنے پر مرضی کے فیصلے لئے جاسکیں؟