لاہور (ویب ڈیسک) دیکھتے ہیں کہ کرپٹ احتساب کی جو غضب ناک کہانی ابھی سامنے آئی ہے، اِس کی غلاظت کو چھپانے کا کوئی ڈراپ سین ہونا ہے یا پھر اس کی بہیمانہ غضبناکیوں کا طوفان بہت ہی مقدس بتائے گئے لوگوں کی دستارِ فضیلت کو بیچ چوراہے تارتار کر دے گا۔ نامور کالم نگار امتیاز عالم اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔ محتسب عدالت کے جج ارشد ملک کی نواز شریف کے خلاف دبائو میں آ کر دیئے گئے فیصلے کی جب وڈیو مریم نواز نے اپنی پریس کانفرنس میں جاری کی تو مملکتِ خداداد کی اخلاقی چولیں ہِل کر رہ گئیں۔ ٹیپ میں معزز جج اپنی بیچارگی اور بلیک میلنگ کے ہاتھوں دیئے گئے ناجائز فیصلے پہ سخت نادم نظر آئے اور منتخب و منتقمانہ سیاسی احتساب کا اینٹی کلائمکس ہو گیا۔ اگلے روز جو وضاحتی بیان دیا گیا وہ بھی نیم اعتراف نیم تردید کا ملغوبہ نظر آیا۔ احتساب کی داعی حکومت بھی کروفر سے میدان میں اُتری اور اس ٹیپ کی فرانزک تفتیش کرانے کے اعلان کے بعد شرمندگی کا سامنا کرنے پر معاملے سے ہاتھ کھینچنے پر مجبور ہو گئی کہ فرانزک ٹیسٹ میں متعلقہ ٹیپ درست ثابت ہو چکی تھی۔ ابھی تو مریم نواز نے اپنے ترکش میں چھپا ایک ہی تیر چھوڑا تھا اور ساتھ ہی یہ انتباہ بھی کہ جن طاقتور اور بڑے لوگوں نے محتسب جج کو دھمکایا تھا ابھی وہ ٹیپ جاری نہیں کی جا رہی۔ غالباً وہ تنقید اور احتساب سے ماورا اداروں کو وقت دینا چاہ رہی تھیں کہ نواز شریف کو ناحق سزا سے بری کرو نہیں تو پھر وہ ’’وزیراعظم نواز شریف کو وزیراعظم بھٹو نہیں بننے دیں گی‘‘۔ اقتدار کی راہ داریاں سنسان ہوتی نظر آئیں اور جج کا وضاحتی بیان اُلٹا گلے پڑ گیا۔ پھر معاملہ اعلیٰ عدلیہ پہ چھوڑ دیا گیا۔ بھلا نام نہاد احتساب کے گناہوں کا بوجھ کوئی کیوں اُٹھاتا۔ عدلیہ کی مشاورت کے نتیجے میں ارشد ملک کو اپنا بیانِ حلفی داخل کرنے کا کہا گیا جس میں موصوف نے شریف خاندان کی جانب سے رشوت اور دھمکیوں کے باوجود انصاف کا بول بالا کرنے کی ایک ایسی طوطا کہانی گھڑی جس کا اُن کے پاس کوئی ثبوت نہیں۔ اگر شریف خاندان کے حواریوں نے جج صاحب کو ترغیب اور دھمکیاں دیں بھی تھیں تو وہ اُن سے کیوں اور بار بار ملتے رہے اور اُنہوں نے سپریم کورٹ کے معزز نگران جج کو مقدمے سے متعلق اپنی متعدد رپورٹوں اور ملاقاتوں میں کیوں آگاہ نہیں کیا۔ اصل ٹیپ گیٹ تو یہ تھا کہ جج کو اُس کی پندرہ سالہ پرانی فحش ٹیپ پر بلیک میل کیا گیا جس پر وہ خود کُشی پر مائل ہوئے لیکن بلیک میلر کے سامنے جھک کر انصاف کا قتل کرنے پر مجبور ہو گئے۔ اب اُلٹا یہ مقدمہ بنایا جا رہا ہے کہ شریف خاندان کے اہلکاروں اور افراد اور خود نواز شریف سے ملاقاتوں میں اُنہیں انصاف کے قتل کے جرم کے اعتراف میں مستعفی ہونے کے لئے دبائو ڈالا جاتا رہا۔اسلام آباد ہائیکورٹ نے محتسب جج کو فارغ کرتے ہوئے وزارتِ انصاف کی تحویل میں دے تو دیا ہے لیکن معاملہ یوں سمٹنے والا نہیں۔ اب ٹیپ اور اقبالی بیان نواز شریف کی بریت کی اپیل کا حصہ بن چکا ہے اور ایک شخص کی درخواست پر سپریم کورٹ نے ٹیپ گیٹ کیس پہ بنچ تشکیل کر دیا ہے اور مریم نواز و دیگر لوگوں کو طلب بھی کر لیا ہے۔ نواز شریف کے خلاف تین مقدمات میں سے ایون فیلڈ ریفرنس میں جج محمد بشیر نے جو سزا دی تھی، اُسے معزز اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایک تفصیلی فیصلہ میں سزا ختم کرتے ہوئے ضمانت دے دی تھی جس کی ضخامت پر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کافی سیخ پا بھی ہوئے تھے۔ دیگر دو ایک جیسے مقدمات میں جج ارشد ملک نے نواز شریف کو فلیگ شپ ریفرنس میں بری کرتے ہوئے العزیزیہ ریفرنس میں سات سال کی قید سنا دی تھی۔ جب نواز شریف کی ضمانت کی درخواستیں ردّ کر دی گئیں تو شریف خاندان نے پہلی ٹیپ کو منظرِ عام پہ لانے کا فیصلہ کیا لیکن زیادہ تہلکہ خیز ٹیپس کو محفوظ رکھ لیا گیا کہ معاملہ اگر یہیں ختم نہیں کیا جاتا تو پھر اگلے رائونڈ کے بارے میں سوچا جائے۔ اب دیکھنا ہے کہ کون پسپا ہوتا ہے اور کون راہِ عافیت اختیار کرتا ہے یا پھر کھلی جنگ کا میدان گرم ہوتا ہے۔بدقسمتی سے چیف جسٹس منیر سے چیف جسٹس نسیم حسن شاہ اور چیف جسٹس افتخار چوہدری سے چیف جسٹس ثاقب نثار تک ہماری معزز عدلیہ کی تاریخ پر بہت سے انمٹ داغ ہیں۔ اب وقت سُرخرو ہونے کا ہے یا پھر کسی اور کے گناہوں پہ پردہ ڈالنے کا بھی ہو سکتا ہے۔ جب انصاف اور احتساب کے اخلاقی جواز پہ اور اداروں کے غیر جانبدارانہ کردار پہ سوال اُٹھ کھڑے ہوں تو مملکت اپنا نیوٹرل کردار کھو کر پارٹی بن جاتی ہے جس سے شہری اور ریاست کے مابین عمرانی معاہدہ بھی ٹوٹ جاتا ہے۔ جج ٹیپ گیٹ اب ریاست اور اس کے جلیل القدر اداروں کے گلے پڑ گیا ہے۔ احتساب کی یکطرفہ غضبناک کہانی کا پول کھل گیا ہے۔ اس حمام کا ابھی ایک مہرہ سامنے آیا ہے۔ باقی مہرے بھی سامنے آ سکتے ہیں اور ریاست کو بچانے کے لئے اگر مہرے ریاست سے اہم نہیں ہو گئے تو ایک نہیں کئی مہرے قربان کیے جا سکتے ہیں لیکن ہمارے ہاں ایسے شاذ ہی ہوا ہے۔ جنرل ایوب گئے تو اپنے ساتھ سب کچھ لے گئے۔ جنرل یحییٰ نے آدھا ملک گنوایا لیکن اقتدار میں رہنے پہ پھر بھی مصر رہے۔ جنرل مشرف نے وردی بچاتے بچاتے پوری عدلیہ ہی فارغ کر دی۔ زیرِ عتاب آئے بھی تو عوام کے منتخب کردہ وزرائے اعظم اور ناحق سولیوں پہ چڑھا دیئے گئے۔ آخر کب تک یہ طاغوتی کھیل مادرِ وطن کے سینے کو چھلنی کرنے کے لئے کھیلا جاتا رہے گا۔ معاملہ فقط نواز شریف کا نہیں، پورے نظام کی اخلاقی بنیاد کا ہے، جس کی ابھی ایک اینٹ ہلی ہے، پوری عمارت ہی منہدم ہو گئی تو کیا ہو گا؟ دیکھتے ہیں کہ کرپٹ احتساب کی غضبناک کہانی یہیں ختم ہوتی ہے یا پھر اس کی بہیمانہ غضب ناکیوں کا سلسلہ بڑے طوفان کا باعث بنتا ہے؟