اسلام آباد(اصغر علی مبارک)صدرجمہوریہ انڈونیشیا عزت مآب جو کو ویدودوکا پارلیمنٹ پاکستان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرنا میرے لیے اعزاز ہے۔ ۱۹۶۳ء میں انڈونیشیا کے پہلے صدر، سوئیکارنو نے اس معزز پارلیمنٹ سے خطاب کیا تھا۔ اس موقع پر، صدر سوئیکارنو نے استعماریت کے خلاف نبرد آزما ہونے کے لئےنیز نوزائیدہ
آزاد ملکوں کے مابین تعاون کی روح پھونکی۔
۔ پچپن سال بعد صدرجمہوریہ انڈونیشیا کو پارلیمنٹ پاکستان سے خطاب کی ایک بار پھر عزت بخشی گئی۔میں اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے۔۔۔ دنیا کے امن اور خوشحالی کے لیے تعاون کی روح پھونکنا چاہوں گا۔
انڈونیشیا اور پاکستان کے مابین دوستیکوئی نئی تشکیل دوستی نہیں ہے انڈونیشیا آزادی کے لئے انڈونیشیا کی جدوجہد میں۔۔۔ پاکستانی عوام کی حمایت کو ہمیشہ یاد رکھے گا۔
؍اگست۸ ، ۱۹۹۵ء میں، انڈونیشیا کی آزادی کی پچاسویں سالگرہ کے موقع پر تحسین کی علامت کے طور پرجمہوریہ انڈونیشیا نے پاکستان کے بابائے قوم محمد علی جناح کو انڈونیشیا کی آزادی کی حمایت میں اس کے کردار پر پہلا اعلیٰ ادی پورنا سٹار عطا کیا۔
دوستی کے علاوہ ہمارے دونوں ممالک میں بہت سی چیزیں مشترک ہیں۔ انڈونیشیا اور پاکستان دو ایسے ممالک ہیں جن کی کثیر آبادی مسلمان ہے۔ ہم ڈی۔۸ کے رکن ممالک ہیں۔۔ ہم او آئی سی۔۔۔ اور غیر جانبدار تحریک کے رکن ممالک ہیں۔ ہم ایشیا۔ افریقہ کانفرنس کے بانی ہیں اور
۔ سب سے اہم یہ ہے ۔۔۔ ہم دونوں جمہوری ممالک ہیں۔ ہم دو ممالک ہیں جو فلسطین کی آزادی کی مسلسل حمایت کر رہے ہیں۔
اس فورم میں۔۔۔ میں ایک دفعہ پھر آپ کو بتانا چاہوں گا کہ ہم اپنے فلسطینی بھائیوں اور بہنوں کی مدد جاری
رکھیں۔۔۔ ہمیں فلسطین کو ان کی جدوجہد میں مسلسل مدد کرنی چاہیے!!!
معزز اراکین پارلیمنٹ ۱۳۔ انڈونیشیا دنیا میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا مسلمان ملک ہے۔ انڈونیشیا میں ۲۶۰ ملین لوگوں میں سے تقریباً ۸۷ فیصد۔۔۔ ۲،۲۲۶ملین کے مساوی آبادی مسلمانوں کی ہے۔
۔ جیسا کہ پاکستان میں،۔۔۔ مسلمانوں کا گھر ہونے کے علاوہ، انڈونیشیا ہندو، کیتھولک، پروٹسٹنٹس، بدھ مت اور دیگر مذاہب کا بھی گھر ہے۔۔۔ انڈونیشیا ایک کثر تیت ملک ہے۔ ۔ میں مشکور ہوں۔۔۔ کثرتیت رکھنے کے باوجود کثیر آبادی کے ساتھ۔ اور جزائر سے زیادہ۔۔۔ اور ۳۴۰ء۱ ؍نسلوں کے ساتھ اور انڈونیشیا اپنے اتحاد کو محفوظ رکھنے میں کامیاب ہوا ہے۔ تنوع میں وحدت بحیثیت قوم ہماری زندگی میں ہمارا نعرہ ہے۔ ہم برابر کے شکر گزار ہیں۔۔۔ ہم بطور قوم اپنی زندگیاں جمہوری انداز سے بسر کرنے کے قابل ہوں گے۔
۔ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ ۔ تنوع کا انتظام کرنا آسان کام نہیں ہے۔ نہ ہی جمہوریت کا انتظام کرنا۔ ہمارے لیے عزم کی ضرورت ہے۔۔۔ ہر قوم کا پختہ عزم عناصر ۔ کثرتیت کو برقرار رکھنے کے لئے۔۔۔ برداشت کا عزم ۔ باہمی احترام کا عزم۔۔۔ تاکہ جمہوریت بہتر طریقے سے کام کر سکے۔
۔ بطور صدر میں مضبوط یقین رکھتا ہوں۔ کہ جمہوریت ہمارے لوگوں کے مفادات کو پورا کرنے کا بہترین عمل ہے۔۔ جمہوریت لوگوں کو ۔۔۔ فیصلہ کرنے کے عمل میں مدد فراہم کرتی ہے۔ جمہوریت سے۔۔۔ انڈونیشیا میں سیاسی استحکام کو برقرار رکھا جاسکتا ہے۔ جمہوریت سے، کافی مضبوط معاشی ترقی ہوتی ہے۔ جو کہ ہر سال ۵ فیصد سے زیادہ تک پہنچ جاتی ہے۔ جمہوریت سے۔۔۔ انڈونیشیا دنیا کی بیسویں(۲۰) بڑی معیشت ہو رہی ہے۔ ۔ میں اس بات کو یقینی بنانا چاہوں گا کہ انڈونیشیا کے تمام لوگ معاشی ترقی کا فائدہ اٹھاسکیں۔۔۔ تاکہ منصفانہ ترقی کو ترجیح ملے۔ معززاراکین پارلیمان اگر سیاسی استحکام اور سلامتی ہو تو ایک ملک۔۔۔ ایک خطہ ۔۔۔کی معیشت پروان چڑھ سکتی ہے۔ تنازع حتی کہ جنگ ہونے کی صورت میں معاشی سرگرمیاں کبھی واقع نہیں ہوں گی۔
۔ تنازعات اور جنگیں کسی کے مفاد میں نہ ہوں گی۔۔۔ میں دہراتا ہوں ۔۔۔ تنازعات اور جنگیں کسی کے مفاد میں نہ ہوں گی۔
۔ عوام۔۔۔ خصوصاً عورتیں اور بچے۔۔۔ تنازعات اور جنگوں میں ہمیشہ سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ تنازعات اور جنگیں انسانیت کی اعلیٰ اقدار۔۔۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے عطاکردہ فضائل کو بگاڑتے ہیں۔ لہٰذا امن کے واحد معاون کے طور پر۔۔۔ عالمی امن کو برقرار رکھنا انڈونیشیا کا عزم ہے۔ آسیان کے ساتھ، گزشتہ پچاس سے زائد برسوں سے۔۔۔ جنوب مشرقی ایشیا کے خطہ میں۔۔۔ استحکام اورخوشحالی کا ارضیاتی نظام پیدا کرنے کے لئے انڈونیشیا ان تھک محنت کررہا ہے۔
۔ آسیان اتحاد اور مرکزیت کے ذریعے انڈونیشیا ایشیا بحرالکاہل خطے کو مستحکم اور ترقی یافتہ بنانے کی جدوجہد جاری رکھے گا۔ ایک بڑے خطے میں۔۔۔ انڈونیشیا بحرہند کے خطے میں امن، استحکام اور ترقی کے بنیادی اکائی کا خواہاں ہے جس سے۔ بحرہند کے خطے کو دنیا کے لیے ترقی کا نمونہ بنانا ہے۔
۔ عالمی سطح پر۔۔۔ پاکستان کی طرح۔۔۔ انڈونیشیا عالمی قیام امن افواج میں بڑے شراکت داروں میں سے ایک ہےانڈونیشیا’’عالمی امن کے لئے سچے ساتھی‘‘ ہونے پر یقین رکھتا ہے۔
۔ گزشتہ دو سالوں میں، انڈونیشیا نے حسب ذیل امور میں معاونت اور امداد فراہم کی:۔ ممالک کے مابین تنازعات کو حل کرنے۔ جنگ سے متاثرہ علاقوں کے بشمول۔۔۔ انسانی بنیادوں پر امداد کی فراہمی۔ خطے میں سیکورٹی کے تحفظ میں مدد۔ سرحد کے اطراف ڈرگز اور نشہ آور اشیاء، انسانی اسمگلنگ اور دہشت گردی کے بشمول گھناؤنے جرائم کو ختم کرنامعزز صدرنشین اور اراکین پارلیمان:۔ انقلابی سیاست اور دہشت گردی قابو سے باہر ہے۔۔ ایک بھی ملک دہشت گردی سے محفوظ نہیں ہے۔۔ انڈونیشیا اور پاکستان سمیت تقریباً تمام ممالک میں دہشت گردانہ حملے ہوئے۔۔ تنازعات، جنگوں اور دہشت گردی کے متاثرین میں سے مسلمانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔۔ اس انتہائی پریشان کن اعدادوشمار کو دیکھو۔۔ دہشت گردی کے ۷۶ فیصد حملے مسلمان ممالک میں ہوئے؛
۔ ۶۰ فیصد مسلح تنازعات مسلمان ممالک کو درپیش ہوئے۔۔ مزید برآں، ہمارے لاکھوں بھائیوں اور بہنوں کو بہتر زندگی کی خاطر اپنے ممالک چھوڑنا پڑے
فیصد مہاجرین مسلمان ممالک سے آئے۔۔ لاکھوں نوجوان مستقبل کے لئے اپنی امید کھو بیٹھے۔ ۔ یہ خطرناک صورتحال جزوی طور پر اندرونی کمزوری کی وجہ سے ہے اگرچہ اس کے بہت سارے بیرونی عوامل بھی ہیں۔۔ کیا ہم ان تشویشناک حالات کو بار بار ہونے دیں گے؟۔ اگر آپ مجھ سے پوچھیں گے تو میں کہوں گا نہیں۔۔ تنازعات کو ہم اپنے ممالک میں واقع نہیں ہونے دیں گے۔ ہم تنازعات کو دنیامیں واقع نہیں ہونے دیں گے۔۔ انسانیت کے حوالے سے احترام انسانیت ہی ہمارا مقصد ہونا چاہیے۔۔۔ بحیثیت قوم ہماری زندگیوں میں میں پھر اعادہ کروں گا کہ احترام انسانیت کو ملحوظ رکھا جائے۔
۔ تاریخ نے ہمیں سکھایا ہے کہ ہتھیار اور فوجی طاقت کبھی بھی تنازعات کا حل نہیں ہو سکتے ۔۔ صرف ہتھیار اور فوجی طاقتیں ہی کبھی دنیا میں امن نہیں لا سکتی اور اسے برقرار نہیں رکھ سکتیں۔۔ مسابقت، اسلحہ کی دوڑ کے واقعات جاری رہیں گے اور تضادات وقوع پذیر ہوتے رہیں گے۔۔ انڈونیشیا ایسا ملک ہے جو کہ تنازعات سے گزرا۔۔ آچے(اے سی ای ایچ) میں تنازعات، مثال کے طور پر۔۔۔ ۳۰ سال سے زائد عرصہ سے وقوع پذیر ہو رہے ہیں۔۔ صرف فوجی نقطہ نظر سے ہی آچے میں تنازعات کو حل نہیں کیا گیا۔ تنازعات کو مذاکرات کے ذریعے۔۔۔ بات چیت کے ذریعے حل کیا گیا ہے۔۔ اس وجہ سے مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھانا چاہیے۔۔ مذاکرات کی یہ بھی طریق ہے جو کہ آسیان کو بناتی ہے۔۔۔ جنوب مشرقی ایشیا میں دس ممالک کی ایسوسی ایشن کو ۔۔۔ جنوب مشرقی ایشیا میں استحکام اور خوشحالی کے آلہ حرب کے قابل ہیں۔۔ میں امید کرتا ہوں کہ ہم میں سے ہر ایک۔۔۔ ہم میں سے ہر ایک۔۔۔ عالمی امن میں اپنا کردار ادا کرے گا۔۔۔ ہم میں سے ہر ایک دنیا کی آسودگی کے لئے انسانیت کے نام پر۔۔۔ انصاف کے نام پر کوششوں کے لئے اپنا کردار ادا کرے گا۔۔ ہمیں ’’مسائل کے حل‘‘ کے لئے فریق ہونا چاہیے نہ کہ ہم مسائل پیدا کرنے کے حامی ہوں۔۔ آئیں اس دنیا میں رہنے والے تمام انسانوں کے نام پر۔۔۔ اس دنیا میں امن اور خوشحالی پیدا کرنے کے لئے مل جل کر کام کریں۔