امریکا اور ایران کے مابین تعلقات میں ہر گزرتے دن کے ساتھ تلخی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ امریکا کے سابق صدر بارک اوباما اور ان کی انتظامیہ نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ کرکے صورتحال کو معمول پرلانے کی کوشش کی جو کامیاب بھی ثابت ہوئی۔ امید کی جارہی تھی کہ اب امریکا اور ایران کے تعلقات بہتری کی جانب گامزن ہوجائیں گے، لیکن اسی دوران 2016 کے انتخابات ہوئے اور امریکی منصبِ صدارت ڈونلڈ ٹرمپ کے نصیب میں آگیا۔ صدارت کا عہدہ سنبھالتے ہی ٹرمپ نے ایران کے معاملے میں جارحانہ رویہ اختیار کیا۔ ابتدا میں تو یہ معاملہ بیانات کی حد تک رہا لیکن ٹرمپ کی جانب سے افغان پالیسی اورپھر ایران کے حوالے سے بھی پالیسی کا باضابطہ اعلان کردیا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر اقتصادی پابندیوں سے متعلق معاملہ امریکی کانگریس کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ امریکی حکومت 6 ممالک کے درمیان ہونےوالے مشترکہ جوہری معاہدے کے نقائص کو دور کرنے کےلیے کانگریس کے ساتھ تعاون کرے گی۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ ایران کو کسی بھی صورت جوہری ہتھیار بنانے کی اجازت ہرگز نہیں دی جائےگی؛ اور یہ کہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ امریکا کا بدترین فیصلہ تھا۔
امریکی صدر کے اس بیان پر ردعمل دیتے ہوئے ایرانی صدر حسن روحانی کا کہنا تھا کہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ ایک تسلیم شدہ بین الااقوامی معاہدہ ہے۔ ایران عالمی جوہری ادارے کے ساتھ تعاون جاری رکھے گا، اگر ایسے دس ٹرمپ بھی اکٹھے ہوجائیں تو بھی اس معاہدے کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔
یہ تو ہوا حالیہ عالمی سیاسی منظرنامہ۔ اب ذرا کچھ سال پیچھے چلتے ہیں تاکہ مکمل کہانی سمجھ میں آجائے۔ 11 ستمبر 2001 کو امریکی سرزمین پر ہونے والے خودساختہ دہشت گرد حملوں کے بعد امریکی جلد باز پالیسیوں کا مقصد گریٹراسرائیل کے خواب کو شرمندہ تعبیرکرنا تھا۔ آپ یقیناً یہ سوچیں گے کہ اچانک اسرائیل کہاں سے آگیا؟ تو جناب ذرا توجہ فرمائیے:
لوئرمین ہٹن میں دہشت گرد حملے سے زمین بوس ہونے والی عمارتوں کی گرد ابھی بیٹھی بھی نہ تھی کہ نئے قدامت پسندوں نے اس وقت کے امریکی صدر جارج بش کو ایسی راہ پر گامزن کردیا جس کا مقصد نہ صرف وسیع تر مشرق وسطیٰ میں امریکی تسلط کو مستحکم کرنا تھا بلکہ عرب ریاستوں کو بھی محدود کرنا تھا؛ جبکہ دوسری جانب یہی وہ وقت تھا جہاں سے امریکا کی تباہی کا باقاعدہ آغاز کیا گیا۔ یہاں یہ جملہ دانستہ استعمال کر رہا ہوں کہ جب ’’امریکا کی تباہی کا باقاعدہ آغازکیا گیا۔‘‘
خارجہ پالیسی کےماہرین میں اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ سابق امریکی صدر بش کی انتظامیہ نے 11 ستمبر کے دہشت گرد حملوں پر ضرورت سے زیادہ ردعمل ظاہر کیا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ اس کی ایک اہم وجہ اس وقت کی امریکی صدارتی انتظامیہ میں حامیوں کے طور پر نئے قدامت پسندوں یعنی ’’نیو کنزرویٹیوز‘‘ کا اثر و رسوخ تھا۔
نئے قدامت پسندوں نے نائن الیون سے چار برس قبل ’’پروجیکٹ فار نیو امریکن سینچری‘‘ نامی تھنک ٹینک میں شمولیت اختیار کی۔ اس تھنک ٹینک کے بانیوں میں ولیم کرسٹل اور روبرٹ کیگن جیسے نظریہ ساز شامل تھے جنہوں نے پہلے ہی سے امریکا پر زور دینا شروع کردیا تھا کہ وہ جب تک ممکن ہو، دنیا میں اپنی اجارہ داری قائم رکھے۔ واضح رہے کہ ولیم کرسٹل اور روبرٹ کیگن امریکی سیاست میں انتہائی طاقتور شخصیات میں شمار ہوتے ہیں جبکہ یہ دونوں حضرات کٹر یہودی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔
ولیم کرسٹل اور رابرٹ کیگن نے زیادہ فوجی اخراجات، ممکنہ خطرات کے خلاف پیشگی اور ضرورت کے مطابق یکطرفہ فوجی کارروائی اور امریکا کے نزدیک ناپسندیدہ ملکوں کی حکومتوں کو بزور طاقت تبدیل کرانے کے نظریات کو فروغ دینا شروع کیا۔ امریکا کی جانب سے دنیا میں مسلم ممالک کے ساتھ کیے جانے والے سلوک کے پیچھے جو مقاصد تھے وہ زرخیز ذہنوں میں تو واضح ہوتے جارہے تھے لیکن بعض حلقے ان سے نابلد تھے۔ مسلمانوں کے ساتھ امریکا اور دیگر یورپی ممالک کا جو رویہ تھا، وہ نائن الیون کے حملے کا فوری ردعمل ہرگز نہیں تھا۔ گویا
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
یہاں اس جملے کی وضاحت کرتا چلوں جو اوپر بیان کیا تھا کہ جب ’’امریکا کی تباہی کا باقاعدہ آغازکیا گیا۔‘‘
گریٹر اسرائیل کے حوالے سے مختلف تحریریں لکھی گئی ہیں اور دنیا اس نام سے آشنا ہے، لیکن اکثریت شاید نہیں جانتی کہ یہ گریٹر اسرائیل ہے کیا؟ اس کی سرحدیں کہاں تک ہیں اور اس مقصد کے حصول کےلیے دنیا کے کون کونسے ممالک ہیں جنہیں تباہ کیا جانا ہے؛ جبکہ اس منصوبے کی تکمیل کےلیے وہ کونسے فیصلے ہیں جو آج سے کئی سال پہلے کیے جاچکے ہیں۔
گیارہ ستمبر کے ڈرامائی حملے میں اسرائیل کے کردار کو واضح کرنے کےلیے ذکر کرتا چلوں کہ 11 ستمبر کو ہونے والے حملے کے روز 4 ہزار یہودی جو ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور اس کے قرب و جوار میں کام کرتے تھے، وہ مبینہ طور پر اچانک ہی اپنی نوکری اور دفاترسے غیر حاضر ہوئے جو محض اتفاق ہرگز نہیں ہوسکتا۔ (واضح رہے کہ مصدقہ اعداد و شمار کے مطابق اس حملے میں مرنے والے یہودیوں کی ممکنہ تعداد کم از کم 270 تھی۔)
لوئرمین ہٹن حملے میں عیسائی، مسلم، ہندو اوردیگر مذاہب کے لوگ مارے گئے لیکن اس حملے میں ایک بھی یہودی ہلاک نہیں ہوا… یہ ’’کمال کا اتفاق‘‘ تھا۔
یہاں ایک بات اور واضح کرتا چلوں کہ یہودی مذہب وہ واحد مذہب ہے کہ جسے اختیار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ یہودی پیدائشی یہودی ہوتا ہے اور بہت کم دیکھا گیا ہے کہ کوئی یہودی اپنا مذہب چھوڑ کر کسی دوسرے مذہب میں داخل ہوا ہو۔
نائن الیون حملہ ایک منصوبے کا پیش خیمہ تھا۔ اس حملے سے دنیا بھر میں امریکا کےلیے ہمدردی اور عوام کا اتحاد پیدا کرنا تھا جس کا بنیادی مقصد اسرائیلی عزائم کو عملی شکل دینے کا موقع فراہم کرنا تھا۔ چنانچہ سب سے پہلے افغانستان کو نشانہ بنایا گیا جو ان کے خیال میں آسان ہدف تھا۔ افغانستان میں اس وقت کی حکومت طالبان کی تھی اور طالبان کے ساتھ ازبک، چیچن، کرد اور دیگر عرب جنگجو شامل تھے۔ القاعدہ کو نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ دیگر عرب ریاستوں کو بھی طالبان کے ساتھ رابطے کے جرم میں نشانہ بنایا گیا۔
افغانستان کی تعمیرنو کے بجائے بش انتظامیہ نے عراق کے خلاف جنگ شروع کردی۔ 2003 میں عراق کے خلاف جنگ کو امریکی خارجہ پالیسی کا انتہائی تباہ کن فیصلہ تصور کیا جاتا ہے، کیونکہ اس سے نہ صرف واشنگٹن کو حاصل بین الاقوامی حمایت اور یکجہتی ختم ہوگئی بلکہ دنیا بھر کے کروڑوں مسلمانوں میں یہ احساس پیدا ہو گیا کہ امریکا کی جنگ اسلام کے خلاف ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی عیسائیوں نے مسلمانوں کے خلاف اقدامات کئے، ان کے پیچھے دماغ اور پیسہ ہمیشہ یہودوں کا استعمال ہوا ہے۔
اس بات میں کسی شک کی گنجائش نہیں کہ اسرائیل کبھی امریکا کا بھی دوست نہیں رہا، بلکہ اسرائیل نے اپنے مقاصد کے حصول کےلیے امریکا کا استعمال کیا۔ عراق، افغانستان کی جنگوں اور یمن، صومالیہ، پاکستان اور دیگرممالک میں ڈرون حملوں سے امریکا کے فوجی اخراجات میں نہ صرف اضافہ ہوا بلکہ ان محاذوں پر لڑائی کے دوران شہریوں کی لاتعداد ہلاکتوں اور امریکی فوجیوں کے ہاتھوں قیدیوں کے ساتھ ناروا سلوک سے واشنگٹن کی اخلاقی ساکھ بھی پامال ہوئی جس سے دنیا بھر میں امریکا مخالف جذبات میں 200 فیصد اضافہ ہوا۔ خود امریکا کے عوام امریکی انتظامیہ کے خلاف کھڑے ہوگئے۔
اگرچہ اس بارے میں مکمل طور پر درست اعداد و شمار دستیاب نہیں لیکن کہا جاتا ہے کہ واشنگٹن دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں اب تک 4.79 ٹریلین ڈالر سے زائد اخراجات برداشت کرچکا ہے اور اس رقم کا امریکا کے مالیاتی بحران میں قابل ذکر حصہ ہے۔
اسرائیل چونکہ براہ راست ان ممالک پر حملہ نہیں کرسکتا یا نہیں کرنا چاہتا تھا، اس لئے امریکا کو اپنے مقاصد کےلیے استعمال کیا۔ یہاں ایک بات اور بتاتا چلوں کہ نائن الیون کے حملوں سے قبل امریکی سی آئی اے کی جانب سے القاعدہ کو خطیر رقم فراہم کی جاتی رہی ہے، یعنی القاعدہ کو بنانے میں امریکا کا کردار تمام دنیا کے سامنے ہے۔
بات چل رہی تھی گریٹر اسرائیل کی، تو گریٹر اسرائیل کے نقشے کو انٹرنیٹ پر بہ آسانی دیکھا جاسکتا ہے، یہ اب کوئی رازنہیں رہا۔ اگر گریٹر اسرائیل کے نقشے کو دیکھا جائے تو اس کی ایک لکیر عراق کے شہر بغداد سے شروع ہوکر کردستان سے ترکی، اسرائیل، لبنان، اردن اور آخر میں سعودی عرب تک آتی ہے جو پورے عرب خطّے کو اپنی لیپٹ میں لیتا ہے۔ اگر بغور جائزہ لیں تو مذکورہ خطے اور یہاں کے لوگ تباہی کی بدترین مثال بن چکے ہیں۔
عراق کو برباد کرنے کےلیے کہا گیا کہ یہاں تباہ کن ہتھیار موجود ہیں، لیکن لاکھوں عراقیوں کے قتل کے بعد بھی کسی ہتھیار کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ مگر عراق کے تیل کی دولت پر امریکا اور اس کے اتحادیوں نے جو قبضہ کیا، اس پر سوال کرنے والا کوئی نہیں۔
عراق کی تباہی اور کنٹرول کا اصل مقصد وہاں موجود تیل کی دولت پر قبضہ کرنا تھا۔ اسرائیل کے معروف اخبار ’’یروشلم پوسٹ‘‘ میں 24 اگست 2015 کو شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق اسرائیل، عراق سے اپنی ضرورت کا 77 فیصد تیل حاصل کرتا ہے۔ ذراغور تو کیجیے کہ عراق سے اسرائیل کا فاصلہ کتنا ہے؟ تیل کی اس طویل ترین پائپ لائن کی حفاظت کیسے ہوتی ہے؟ جبکہ عرب خطّے میں موجود داعش، القاعدہ اور دیگر دہشت گرد تنظیمیں کسی بھی چیز کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں لیکن 1300 کلومیٹر پر مشتمل تیل کی پائپ لائن باقاعدگی سے اسرائیل کو تیل فراہم کررہی ہے۔
سرزمینِ عرب کے مختلف خطوں کی تباہی سے دنیا آگاہ ہے، عراق میں کردستان سے نئی ریاست کےلیے جدوجہد کرنے والے کردوں کی کارروائیاں خطرناک حد تک بڑھ چکی ہیں۔ شمالی عراق میں ’’آزاد کُردستان‘‘ کےلیے ریفرنڈم کامیاب ہو گیا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ 75 فیصد سے زائد کُردوں نے اپنے علیحدہ وطن کے حق میں ووٹ ڈالا ہے۔ عراق نے اسے مسترد کرتے ہوئے سخت مخالفت کی ہے لیکن نحیف عراق کی سنے گا کون؟ اسرائیلی وزیراعظم نے فوری طور پر ’’آزاد کردستان‘‘ میں اسرائیلی سفارتخانہ کھولنے کا اعلان بھی کردیا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے یہ اعلان معنی خیز ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ اسپین میں بھی ایک علیحدگی پسند تحریک چل رہی تھی جس میں اسپین کے شمال مشرقی علاقے ’’کاتالونیا‘‘ میں ایک کامیاب ریفرنڈم کے تحت علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا گیا تھا، لیکن اسرائیل نے وہاں اپنا سفارتخانہ کھولنے کا اعلان نہیں کیا۔ وجہ عقل مند ذہنوں میں بہ آسانی سماسکتی ہے کہ اسپین نہ تو مسلم ملک ہے اور نہ ہی وہ گریٹر اسرائیل کی سرحدوں سے ملتا ہے۔
بات طویل ہو گئی ہے۔ اب اختتام کی طرف جانا ہوگا ورنہ بقول کفیل آزر امروہوی کے، حقیقت تو یہی ہے کہ
بات نکلے گی تو پھر دُور تلَک جائے گی
درحقیقت اسرائیل خود امریکا کے ساتھ بھی مخلص نہیں۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے اب امریکیوں کو بھی علم ہوگیا ہے کہ ان کے ٹیکس کے پیسے براہ راست اسرائیل کو بطور ملٹری ایڈ دیئے جاتے ہیں جس کی کوئی تُک نہیں بنتی۔ گزشتہ سال امریکا نے اسرائیل کےلیے 38 ارب ڈالر کی فوجی امداد کا اعلان کیا جس میں موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے حالیہ دورہ اسرائیل میں مزید اضافے کا اعلان کردیا ہے۔ کیا اسرائیل کو کسی امداد کی ضرورت ہے؟
اسرائیلی معیشت میں نمو کی سالانہ شرح 4 فیصد ہے جبکہ وہاں خواندگی کا تناسب تقریباً 99 فیصد ہے۔ اسرائیل میں ہر دس ہزار ملازمین میں سے 140 انجینئر یا تکنیکی ماہر ہیں، جبکہ امریکا اور جاپان میں یہی شرح بالترتیب 83 اور 85 ہے۔ علاوہ ازیں، اسرائیل کے ہر دس لاکھ شہریوں میں سے انجینئروں، سائنسدانوں اور تحقیق کاروں کی تعداد 8337 ہے جبکہ امریکا، جنوبی کوریا اور جاپان میں یہ تناسب بالترتیب 3984، 6533 اور 5195 ہے۔ علاوہ ازیں جدید ترین ٹیکنالوجی (ہائی ٹیکنالوجی) کے میدان میں بھی اسرائیل صفِ اوّل کے ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ یہ اور ایسے ان گنت حقائق کی روشنی میں اسرائیل کےلیے امریکی امداد کی کوئی معقول وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔
البتہ امریکی حکومتوں کی ان ہی پالیسیوں کی بناء پر امریکا میں اسرائیل مخالفت میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے، اسرائیل کے مفادات کو رکاوٹ کا سامنا ہورہا ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ اب امریکا اسرائیل کے کسی کام کا نہیں رہا تو بے جا نہ ہوگا۔ اسرائیل نے امریکا کو ایسے بھنور میں پھنسا دیا ہے جہاں سے نکلنا امریکا کےلیے ناممکن ہے۔ معاملہ یہیں پر بس نہیں ہورہا، سونے پر سہاگہ نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہیں جو رہی سہی امریکی ساکھ کا کباڑا کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
قصہ مختصر یہ کہ تمام حالات و واقعات پکار پکار کر یہی کہہ رہے ہیں کہ اسرائیل ’’گریٹراسرائیل‘‘ کے منصوبے پر کامیابی سے عمل پیرا ہے؛ اور اس کی راہ میں حائل ہر رکاوٹ کو امریکا، داعش، القاعدہ، را اور دیگر حواریوں کی مدد سے ہٹایا جارہا ہے۔