جے آئی ٹی کی رپورٹ میں کہا گیا کہ وزیراعظم نے دوران تفتیش عدم تعاون کا مظاہرہ کیا اور نواز شریف کے بیان کا زیادہ تر حصہ سنی سنائی باتوں پر مشتمل تھا، وزیراعظم نے جے آئی ٹی کے سامنے ٹال مٹول والا رویہ اختیار کیا اور زیادہ تر سوالات کے اطمینان بخش جواب نہیں دیئے، نواز شریف اپنی انکم اور ویلتھ ٹیکس سے متعلق تحفظات کی وضاحت نہ کرسکے اور جے آئی ٹی ارکان کو مطمئن کرنے میں ناکام رہے۔ جے آئی ٹی رپورٹ میں کہا گیا کہ وزیراعظم کے بیانات کے چند حصے حقائق پر مبنی نہیں تھے اور یہ بات سامنے آئی ہے کہ نواز شریف کسی نہ کسی طور اپنے خاندانی کاروبار سے منسلک ہیں۔ رپورٹ کے مطابق وزیراعظم کا پورا خاندان بلواسطہ یا بلاواسطہ لندن فلیٹس کا بینی فیشری (فائدہ اٹھانے والا) ہے، نوازشریف نے بیان میں کہا وہ گلف اسٹیل کے پارٹنر محمد حسین کو نہیں جانتے، لیکن ان کا یہ کہنا بعد میں غلط ثابت ہوا۔
جے آئی ٹی نے وزیراعظم سے 14 سوالات پوچھے۔ جے آئی ٹی نے وزیراعظم سے پوچھا کہ انہوں نے اپنے خاندان کے افراد کیلئے کوئی رقم باہر بھیجی ہے تو وزیراعظم نے جواب دیا کہ انہوں نے اپنے خاندان کے افراد کیلئے کوئی رقم بیرون ملک نہیں بھیجی۔ جے آئی ٹی نے پوچھا کہ آپ کی نیب سے چودھری اور رمضان شوگر ملز کے قرض سے متعلق سیٹلمنٹ ہوئی؟، اس کی تفصیلات سے آگاہ کریں۔ وزیراعظم نے جواب میں چودھری اوررمضان شوگر ملز قرض سیٹلمنٹ سے مکمل لاعلمی کا اظہار کیا۔ جے آئی ٹی نے وزیراعظم سے پوچھا کہ کیا انہوں نے ہل میٹل سے موصول ہونے والی رقم سیاسی فنڈنگ کیلئے استعمال کی؟ تو نواز شریف نے جواب دیا کہ انہوں نے ایسا نہیں کیا لیکن کیا اگر وہ ایسا کریں تو یہ جرم ہے؟۔ اس پر جے آئی ٹی نے کہا کہ کیا ہل میٹل کی رقم فارن فنڈنگ کے تحت نہیں آتی جس پروزیراعظم نے اس سوال کا کوئی جواب نہ دیا۔
جے آئی ٹی نے نوازشریف سے استفسارکیا کہ آپ نے عزیزیہ اورگلف اسٹیل کے ریکارڈ کی موجودگی کی تصدیق کی لیکن آپ کے وکیل نے سپریم کورٹ میں دستاویزات کی موجودگی کی تردید کردی، جس پر وزیراعظم نے جواب دیا کہ وہ یقین سے تو کچھ نہیں کہہ سکتے تاہم ممکن ہے کہ انہوں نے وہ ریکارڈ اسپیکر کے حوالے کردیا ہو۔ جے آئی ٹی نے دوران تفتیش وزیراعظم سے پوچھا کہ کیا انہیں معلوم ہے کہ ان کے بیٹوں حسن اور حسین نے عزیزیہ اور گلف اسٹیل سے متعلق کیا ریکارڈ جمع کرایا، جس پر وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے اپنے بچوں کی گزارشات نہیں دیکھیں تاہم بچوں نے جو بھی کہا وہ اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ جے آئی ٹی نے نواز شریف سے پوچھا کہ وہ التوفیق کمپنی کے قرضے کی سیٹلمنٹ کے بارے میں کیا جانتے ہیں، جس پر وزیراعظم نے جواب دیا کہ انہوں نے سیٹلمنٹ کا سنا تو ہے لیکن اس کی تفصیلات نہیں جانتے۔ جے آئی ٹی نے پوچھا کہ کیا فیملی کے اثاثوں کی تقسیم کے وقت لندن فلیٹس کا معاملہ زیرغور آیا تھا، جس پروزیراعظم نے جواب دیا کہ لندن فلیٹس کا معاملہ سیٹیلمنٹ کے وقت زیر غور آیا تھا اور لندن فلیٹس حسن اور حسین کے پاس تھے۔
جے آئی ٹی نے کہا کہ حسین نواز کا دعویٰ ہے کہ لندن فلیٹس ان کے ہیں تو وزیراعظم نے جواب دیا کہ وہ یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن ان کے خیال میں لندن فلیٹس کے مالک دوسرے بیٹے حسن نوازہیں۔ جے آئی ٹی نے پوچھا کہ حسین نوازکہتے ہیں کہ یہ فلیٹس انکے ہیں لیکن ایک دہائی سے زیادہ عرصہ سے حسن نواز وہاں رہتے ہیں؟۔ اس پر وزیراعظم نے جواب دیا کہ دو بھائیوں کے درمیان یہ کوئی غیرمعمولی بات نہیں۔ جے آئی ٹی نے سوال کیا کہ کیا آپ حسن اورمریم کے درمیان ٹرسٹ ڈیڈ کے بارے میں جانتے ہیں جس پروزیراعظم نے حسن اورمریم کے درمیان کسی ٹرسٹ ڈیڈ سے لاعلمی کا مظاہرہ کیا۔ جے آئی ٹی نے سوال کیا کہ کیا آپ نیشنل بینک کے صدرسعید احمد کوجانتے ہیں اورکیا ان کے ساتھ کوئی کاروباری تعلق تھا۔ وزیراعظم نے جواب دیا کہ وہ سعید احمد کو کافی عرصے سے جانتے ہیں لیکن ان کے ساتھ کوئی کاروباری تعلق نہیں۔ جے آئی ٹی نے وزیراعظم سے سوال کیا کہ کیا آپ قاضی فیملی کو بھی جانتے ہیں؟۔ وزیراعظم نے کہا کہ وہ قاضی فیملی کو نہیں جانتے، بہت سے لوگوں سے ملتے ہیں، اور سب کو یاد نہیں رکھ سکتے۔ جے آئی ٹی نے پوچھا کہ کیا آپ شیخ سعید کو جانتے ہیں، تو وزیراعظم نے کہا کہ وہ شیخ سعید کو جانتے ہیں نہ ہی ان سے کوئی کاروباری تعلق ہے۔