دہشت گردی قومی یا علاقائی مسئلہ نہیں ہے بلکہ ایک ایسا بین الاقوامی مسئلہ ہے جو ہزاروں سالہ انسانی تہذیب کے درپے ہے۔ لیکن اس بین الاقوامی مسئلے سے علاقائی سطح پر ہی نمٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ دہشت گردی کا شکار ہونے والے معصوم اور بے گناہ عوام کا تعلق نہ کسی ایک مذہب سے ہے نہ کسی ایک ملک سے، بلکہ دہشت گردی کا شکار ہونے والوں کا تعلق مختلف مذاہب، مختلف ملکوں سے ہے۔
یہ درست ہے کہ مغربی ملک اس سنگین مسئلے سے نمٹنے کے لیے مشترکہ اقدام بھی کر رہے ہیں لیکن اب تک اس سنگین مسئلے سے نمٹنے کے لیے کوئی موثر بین الاقوامی اتحاد بنا، نہ تسلسل کے ساتھ کوئی مشترکہ کارروائی کی جا رہی ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ دہشت گردی کی بڑی وارداتیں مسلم ملکوں ہی میں ہو رہی ہیں اور مسلمان ہی سب سے زیادہ اس وبا سے متاثر ہورہے ہیں، لیکن اب تک اس تباہ کن مسئلے سے نمٹنے کے لیے مسلم ملکوں کا کوئی موثر اتحاد نظر نہیں آرہا۔ ایک ہفتے کے دوران مسلم ملکوں میں دہشت گردی سے جو نقصانات ہوئے ہیں اس کا اندازہ ترکی، عراق میں ہونے والی دہشت گردی کی لگاتار وارداتوں سے ہوسکتا ہے۔
عراقی دارالحکومت بغداد میں تین بم دھماکے ہوئے، جن میں 29 افراد جاں بحق اور 53 سے زیادہ زخمی ہوئے۔ ترکی میں نئے سال کی تقریبات منائی جا رہی تھیں کہ ایک مسلح شخص نے نائٹ کلب میں گھس کر اندھادھند فائرنگ کردی، جس سے 39 افراد ہلاک اور 40 سے زیادہ افراد زخمی ہوگئے اور دلچسپ بلکہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ 39 افراد کو ہلاک کرنے اور 40 افراد کو منٹوں میں زخمی کرنے والا شخص آسانی سے فرار ہوگیا۔ عموماً جب کسی ملک میں دہشت گردی کی کوئی بڑی واردات ہوتی ہے تو ہائی الرٹ کا اعلان کیا جاتا ہے، لیکن چند دن بعد ہائی الرٹ ختم ہوجاتا ہے جس کا فائدہ دہشت گرد اٹھاتے ہیں۔
کرسمس عیسائی برادری کی سب سے بڑی تقریب ہے، اس خطرے سے ساری دنیا واقف ہے کہ ایسی تقریبات کے موقع پر دہشت گرد آسانی سے بڑی واردات کر گزرتے ہیں۔ ترکی کے شہر استنبول میں کرسمس کے موقع پر ہی اتنی سنگین واردات کرگئے اور اس بڑی کارروائی میں ملوث دہشت گرد آسانی سے فرار ہوگیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موقع کی مناسبت سے موثر انتظامات کیوں نہیں کیے گئے؟ یہ ایک حقیقت ہے کہ دہشت گردوں کا تعلق مسلم قوم سے ہے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دہشت گردی کا زیادہ تر شکار مسلم ملک اور مسلمان ہی ہو رہے ہیں۔ صرف پاکستان میں اب تک 60 ہزار کے لگ بھگ مسلمان دہشت گردی کی نذر ہوگئے ہیں۔ عراق اور شام بھی دہشت گردی کے مرکز بن گئے ہیں۔ عموماً ان حلقوں میں ہر روز ہی دہشت گردی کی سنگین وارداتیں ہوتی رہتی ہیں۔ 57 مسلم ملکوں میں اب تک کوئی ایسا بڑا بین المسلمین اتحاد نظر نہیں آتا جو دہشت گردی کے خلاف تسلسل کے ساتھ کارروائی کر رہا ہو۔
دہشت گردی خصوصاً عراق اور شام میں ہونے والی دہشت گردی کا ایک افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ان ملکوں میں ہونے والی دہشت گردی عموماً فقہوں کے حوالے سے کی جا رہی ہے، لیکن مسلم ملکوں میں فقہی دشمنیوں کے خلاف اب تک کوئی فکری کوششیں کی گئیں نہ 57 مسلم ملکوں میں فقہی اختلافات کو ختم کرنے کے لیے کوئی موثر اور منظم کوشش کی گئی۔ شام دہشت گردی کا شکار ملک ہے لیکن شام میں بڑی طاقتوں کے مفادات کی جنگ کی وجہ سے دہشت گردی کی روک تھام کے لیے موثر کوششیں کی جاسکتی ہیں۔ امریکا شام کے صدر بشار الاسد کا سخت مخالف ہے، اس کی مسلسل یہ کوشش رہی ہے کہ بشارالاسد کو اقتدار سے ہٹایا جائے، اس مہم میں امریکا کے ساتھ کچھ عرب ملک بھی شامل ہیں۔ روس بشار الاسد کا حامی ہے اور اس کی پوری کوشش ہے کہ بشارالاسد شام میں برسر اقتدار رہیں۔
بھارت میں بھی دہشت گردی کی وارداتیں ہوتی رہتی ہیں، اصولاً اس خطے سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے دونوں ملکوں کو مشترکہ کوششیں کرنی چاہئیں لیکن ہو یہ رہا ہے کہ بھارت دہشت گردی کو پاکستان کے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ کشمیر دونوں ملکوں کے درمیان نہ صرف ایک متنازع مسئلہ ہے بلکہ اس خطے میں کشمیر کا مسئلہ دہشت گردی کا مسئلہ دونوں ملکوں کے درمیان عدم اعتماد کا سبب بنا ہوا ہے، بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہے کہ اس خطے میں دہشت گردی کے فروغ میں کشمیر کا مسئلہ بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔
اسی طرح فلسطین کا دیرینہ مسئلہ بھی دنیا میں دہشت گردی کے فروغ کا ذریعہ بنا ہوا ہے۔ لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ بڑی طاقتیں محض اپنے سیاسی اور اقتصادی مفادات کی خاطر ان دونوں سنگین مسائل کو حل کرنے سے گریزاں ہیں۔ یہ درست ہے کہ ترقی یافتہ مغربی ملکوں میں دہشت گردی میں وہ شدت نہیں جو مسلمان ملکوں میں دیکھی جا رہی ہے لیکن کشمیر اور فلسطین کے مسائل کو حل کرنے کی سنجیدہ کوششیں نہ کی گئیں تو اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ آنے والے دنوں میں ساری دنیا عراق، شام اور پاکستان جیسی دہشت گردی کا شکار ہوسکتی ہے۔
اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان دہشت گردوں کا اڈہ بنا ہوا ہے۔ پاکستان میں دہشت گرد تنظیموں پر پابندی عائد ہے لیکن دہشت گرد تنظیمیں مختلف ناموں سے کام کر رہی ہیں، جس کا علم پاکستانی حکومت کو بھی ہے لیکن یہ کالعدم تنظیمیں دوسرے ناموں سے نہ صرف موجود ہیں بلکہ مذہبی انتہا پسندی کے فروغ کا ذریعہ بھی بن رہی ہیں۔ اور یہ سلسلہ کشمیر کے مسئلے کے منصفانہ حل تک فطری طور پر جاری رہے گا، کیونکہ بھارت کے مقابلے میں پاکستان ایک کمزور ملک ہے اور بھارت پر دباؤ ڈالنے کے لیے مذہبی انتہا پسندوں کو استعمال کرسکتا ہے۔