بڑے بھائی کے پاس ایک دیہاتی گاہک عینک صحیح کروانے آیا. وہ اس وقت بڑے ہی اچھے موڈ میں تھے لہذٰا انہوں نے اس کی قیمت محض تیس روپے ڈیمانڈ کی. گاہک کو اندازہ تھا کہ قیمت معقول ہے مگر پھر بھی اس نے سوچا کہ شاید ابھی بھی زیادہ مانگے ہوں. اس نے کہا بیس روپے لے لیں اور لات لگا دیں. بھائی نے کہا تیس سے انتیس بھی نہیں ہوں گے. تو گاہک نے سیانا بننے کی کوشش کرتے ہوئے اپنے پاس سے کہہ دیا “یہی لات فلاں دکاندار بیس میں لگا کر دے رہا ہے” بھائی کا موڈ خراب ہوگیا.انہوں نے کہا کہ اگر لینی ہے تو تیس روپے میں لے لو.اس سے کم نہیں ہوں گے اگر آگے سے پتہ کرکے دوبارہ لگوانے آؤ گے تو چالیس سے کم نہیں لوں گا. گاہک نہیں مانا اور آگے چلا گیا. کوئی دو گھنٹے مختلف دکانیں اور سٹال گھومنے کے بعد واپس آیا اور کہا یہ لو بھائی تیس روپے اور لگا دو۔ بڑے بھائی نے کہا کہ میں نے جاتے ہوئے کہا تھا کہ اگر مارکیٹ گھوم کر آؤ گے تو چالیس سے کم نہیں ہوں گے. لہذٰا اب چالیس میں لگے گی. وہ پھر سے واپس مڑنے لگا تب بھائی نے کہا اس بار مڑ کر آؤ گے تو پورے پچاس لوں گا. یہی ہواوہ مزید ایک ڈیڑھ گھنٹہ مارکیٹ گھوم کر واپس آیا اور منتیں کرنے لگا کہ اب چالیس میں ہی لگا دو مگر بھائی نہیں مانا. بالآخر وہ پچاس میں لگوانے پر رضامند ہوگیا. بھائی نے عینک کی نئی لات لگائی اور پچاس لیکر نا صرف بیس واپس کردئیے بلکہ بوتل بھی پلائی اور کہا کہ یہ صرف اس لیے بڑی دور سے آئے ہو اور بازار گھوم گھوم کر کافی تھک گئے ہوگے. گاہک نے بھی انکشاف کیا کہ مارکیٹ میں واقعی پچاس ریٹ ہے مگر وہ مارکیٹ چھوڑ کر یہاں سے پچاس میں لینا چاہے گا اگر اس وقت وہ گاہک اپنی انا کا مسئلہ بنا لیتا اور مہنگے داموں ہی اسی شخص سے عینک کی لات لگوانے کا فیصلہ نا کرتا تو نا صرف وہ بیس روپے کی بچت سے محروم رہتا بلکہ زندگی بھر کے لیے ایک اچھے دوست سے بھی محروم رہتا. ہماری زندگی میں کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ پہلی مرتبہ ہی ڈائریکٹ کسی درست انسان سے ٹکر ہوجاتی ہے مگر ہم اعتبار نہیں کرتے. اس کے بعد ایک سے ایک ہر دوسرے پھر تیسرے فرد کو آزماتے ہیں مگر ہماری انا واپس اسی شخص کے پاس جانے سے روکے رکھتی ہے اگر ہم واپس مڑنا سیکھ لیں تو اس گاہک کی طرح ایک بہترین انسان بن کر دوسرے بہترین انسان کا ساتھ پاسکتے ہیں۔