اس مضمون کا مقصد اس بات پر بحث کرنا نہیں کہ تاج محل کوئی مندر ہے یا مسجد ہے بلکہ ان باتوں کو سامنے لانا ہے جو کہ قدیم انڈین گورنمنٹ نے عوام سے چھپائے رکھیں. تاج محل کی پرانی تصویروں کو دیکھا جائے تو اس این دو تہہ خانے نظر آتے ہیں.ونسنٹ سمتھ نے یہ تصویر اپنی کتاب میں لگا ئی تھی.کتاب کا نام ہے . ہسٹری آف فائن آرٹ ان انڈیا اینڈ سیلون. اس سے پہلے کچھ تصاویر ١٨٤٤ میں سلیمن کی کتاب سے ملی تھیں. مگر کسی بھی تاریخ دان نے ان تہہ خانوں کے بارے میں جاننے کی جستجو نہیں کی. یمونا دریا کے سامنے لی گئی تاج محل کی تصور میں گرل لگے کمرے نظر آتے ہیں. تصور میں سیڑھیاں نیچے موجود بارہ کمروں کی طرف جاتی نظر آتی ہیں.ایک دروازہ نیچے موجود تہہ خانے کی طرف جاتا ہے جس کو اینٹوں سے بند کر دیا گیا ہے. اس سے پہلے ٹمبر دروازے کو بھی اینٹوں سے بند کر دیا گیا تھا.ایک پروفیسر نے یہ انکشاف کیا تھا کہ تاج محال شاہ جہاں سے پہلے بنایا گیا تھا. یہ سن کر حکومت نے تہہ خانے کے دروازے بند کروا دیے. سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کانگریسی حکومت نے ستر کی دہائی میں دروازے کیوں بند کروا دیے تھے؟جب غیر ملکیوں نے یہ ثابت کر دیا تھا کہ تاج محل شاہ جہاں سے پہلے تعمیر کیا گیا تھا؟ بی جے پی نے الیکشن سے پہلے بہت شور مچایا کہ وہ تہہ خانے کے دروازے کھلوا دیں گے بی جے پی کی اپنی حکومت ہے اور اپنی ریاست ہے مگر اس کے باوجود وہ خاموش ہیں.دوسری جانب آگرہ میں سفید رنگ کی مشہور عمارت جسے سنگ مرمر سے بنا یا گیا،تاج محل کہلاتی ہے۔ اسے شاہ جہاں نے تعمیر کرایا جو پانچواں مغل شہنشاہ تھا شاہ جہاں 1628 سے 1658 تک برصغیر پاک و ہند کا حاکم رہا۔ اس نے اپنی پسندیدہ ترین بیوی ممتاز محل کی یاد میں اسے تعمیر کیا۔ یہ 42 ایکٹر پر مشتمل ہے۔ اس میں ایک مسجد اور ایک مہمان خانہ بھی ہے۔ اس کی تعمیر 1643 میں مکمل ہوئی تاہم آئندہ 10 برسوں تک اس پر اضافہ کام ہوتا رہا۔ اس وقت اس پر تین کروڑ بیس لاکھ خرچ ہوئے جو آج کے حساب سے 50 ارب روپے سے زائد بنتے ہیں۔