پاکستان کی تاریخ میں قائدِاعظم محمد علی جناح کے بعد حقیقی معنوں میں اگر کسی کو عوامی لیڈر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے تو وہ نام ذوالفقار علی بھٹو کا ہے۔ محمد علی جناح نے پاکستان بنایا اور اس پاکستان کو سنوارنے کی جدوجہد ذوالفقار علی بھٹو نے کی۔ ان کی سیاست کو آج بھی پاکستان کے کئی سیاسی رہنما فالو کرتے ہیں۔
میاں شہباز شریف کی تقریروں کا بھٹو کی تقریروں سے موازنہ کرکے دیکھ لیں، جوش و خطابت میں کوئی واضح فرق نظر نہیں آئے گا۔ شہباز شریف صاحب بالکل ویسے ہی عوام سے مخاطب ہوتے ہوئے ڈائس اور مائیک کو دھکیل کرعوام کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں جیسے کہ بھٹو صاحب کرتے تھے۔ ملک کے دوسرے سیاسی رہنما بھی ذوالفقار علی بھٹو کے ویژن سے بہت متاثر نظر آتے ہیں۔
قائدِ عوام ذوالفقار علی بھٹو 5 جنوری 1928ء کو سندھ کے علاقے ریٹو ڈیرہ میں پیدا ہوئے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی سے بیرسٹر بننے کے بعد انہوں نے سیاست میں انٹری لے لی۔ 1963ء میں وہ وزیر داخلہ بنے۔1967ء میں انہوں نے اپنی ایک سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کے نام سے بنائی، جس کی چئیرمین شپ آج بھٹو خاندان کے وارث بلاول بھٹو زرداری کے پاس ہے اور پارٹی صدارت آصف علی زرداری کے سپرد ہے۔
1970ء کے عام انتخابات میں عوامی مسلم لیگ نے مجموعی سیٹوں میں اکثریت حاصل کی اور بھٹو پارٹی نے مغربی پاکستان میں واضح اکثریت حاصل کی تھی۔ دنوں جماعتوں میں چھ نکاتی آئین پر اتفاق نہ ہوا جو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سبب بنا۔ 16 دسمبر 1971ء پاکستان کی تاریخ کا ایک سیاہ دن سمجھا جاتا ہے جب ایک بغاوت کے ذریعے ہندوستانی فوج نے پاکستان کا ایک بازو کاٹ ڈالا مگر اس کا الزام ہمیشہ بھٹو پر لگایا گیا۔ لوگ شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ 1971ء کی جنگ کے بعد 90 ہزار سے زائد قید پاکستانی فوجی اور 5 ہزار مربع میل رقبہ بھارت سے چھڑوانے والی شخصیات یہی بھٹو صاحب کی تھی۔
ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو بلندیوں تک پہنچانے کے لیے بہت جدو جہد کی۔ ان کی پارٹی کا ہمیشہ سے یہی نعرہ رہا کہ روٹی کپڑا اور مکان۔ اپنے اس نعرے کو پورا کرنے کی بھی وہ خاطر خواہ کوشش کرتے رہے۔ 20 دسمبر 1971ء سے 13 اگست 1973ء تک ذوالفقار علی بھٹو ملک کے پہلے مارشل لاء ایڈمینسٹریٹر بنے۔ اس کے بعد 14 اگست 1973ء سے 5 جولائی 1977ء تک وزارتِ عظمیٰ سنبھالی۔
دنیا میں وزیرِ اعظم کی حیثیت سے جہاں گئے پاکستان کا پرچم بلند کرکے آئے، کبھی کسی سے جھک کر نہیں ملے نہ کسی کے آگے ملک کے نام پر بھیک مانگی۔ ان کے دورِ حکومت میں پاکستان کے دوسرے ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات رہے۔
بھٹو صاحب کی ایک کاوش یہ بھی ہے کہ اسلامی دنیا کو یکجا کرنے کی خاطر 25 ستمبر 1969ء اسلامک سربراہ کانفرنس (اورگینائزیشن آف اسلامک کنٹری) کا انعقاد کیا جس کی اب تک 58 اسلامک ممبرشپ حاصل کر چکے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں پاکستان نے اٹامک انرجی کی طرف قدم رکھا اور بھٹو صاحب ہی وہ شخصیت تھے جن کا بنایا ہوا 1973ء کا آئین آج 45 سال گزر جانے کے بعد بھی ملک میں رائج ہے۔ اس آئین پر بے شک مکمل طور پر عمل نہیں ہوا مگر وہ آئین پاکستان کی بہتری کے لیے ایک مکمل آئین ہے جس پر ملک کے تمام صوبوں کا اتفاق بھی ہے۔ آج اتنے سال گزرنے کے باوجود کوئی ایسا لیڈر سامنے نہیں آسکا ہے جو پاکستان کا نیا آئین بنا سکا ہو۔ ذوالفقار علی بھٹو نے جمہوریت اور سول بالادستی کے لیے بہت کام کیا ہے۔
1977ء میں دوبارہ ہونے والے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی نے فتح حاصل کی اور 5 جولائی 1977ء کو اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل ضیاء الحق نے بھٹو پر بغاوت کا الزام عائد کرتے ہوئے ملک میں مارشل لاء لگادیا۔ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو پر احمد رضا خان قصوری کے قتل کا الزام لگا جو ان کو پھانسی کے پھندے تک لے گیا اور سنٹرل جیل راولپنڈی میں 4 اپریل 1979ء کو قائد عوام پاکستان کی تقدیر بدلنے والے 51 سالہ ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ پہلی بار تاریخ میں ایسا ہوا کہ رات کو 2 بجے کسی کو پھانسی دی گئی۔ سنٹرل جیل میں اس وقت کے سکیورٹی پر نافذ اہلکاروں کا کہنا تھا کہ زندگی کے آخری ایام میں ذوالفقار علی بھٹو نے کھانا پینا چھوڑ دیا تھا۔ ان کی حالت بہت علیل ہوچکی تھی۔ انہیں جب پھانسی کے تختہ پر لے جایا گیا تو ان سے چلا بھی نہیں جارہا تھا۔ کچھ اہلکاروں نے انہیں اٹھا کر پھانسی گھاٹ تک پہنچایا۔ بھٹو صاحب کو پھانسی دینے کے بعد انہیں وہیں دفنا دیا گیا جس کے بعد جیالوں اور بھٹو خاندان کے وارثوں کے احتجاج کے سبب ان کی نعش کو گڑھی خدا بخش لاڑکانہ لے جانے کی اجازت دی گئی۔
موت سے قبل انہیں سعودی عرب اور ترکی کی جانب سے سیاسی پناہ کی پیشکش ہوئی تھی مگر انہوں نے فوجی آمر کے آگے ڈٹے رہنے اور اپنے ملک پاکستان میں جینے مرنے کی قسم کھا رکھی تھی۔ بھٹو صاحب کے وکیل یحییٰ بختار نے بتایا کہ جب ان کی پھانسی کا فیصلہ لے لیا گیا تو ذوالفقار علی بھٹو نے کہا کہ میرے بعد میری قوم کو بتا دینا کہ بزدل قوموں کے بہادر لیڈروں کا یہی انجام ہوتا ہے۔