حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی ولادت باسعادت ہوئی تو ظلم و جبر کی آندھیوں کا زور ٹوٹ گیا ، نفرتیں اور عداوتیں محبتوں میں بدلنا شروع ہوگئیں
مخلوقِ خدا پر اپنے خالقِ لم یزل کی اتنی کرم نوازیاں اور انعامات و احسانات ہیں اگر جن و انس مل کر قیامت تک بھی ان کا شمار کرنا چاہیں تو نہیں کر سکتے۔محض کرم نوازیاں ہی نہیں بلکہ ان کی انتہا دیکھیں کہ کوئی نعمت دے کر احسان جتلایا بھی نہیں۔ ایک ایسی نعمت ہے جب وہ عطا کی تو خبردار کیا اور فرمایا، ترجمہ:’’ ہم نے ایمان والوں پر احسان کیا کہ ان کے اندر انہی میں سے ایک رسول بھیجا‘‘۔ پھر اس نعمت کو اس طرح مزین کیا کہ جہاں کی ساری نعمتیں اس کے وجود میں گم کر دیں ۔
اگر عبدیت کی نعمت کا ذکر ہو تو اس کو ’’سبحٰن الذی اسریٰ بعبدہ‘‘ کہہ کر اس کا مظہر اتم بنا دیا۔اگر انسانیت کا ذکر ہو تو’’ انما انا بشر مثلکم‘‘ کا پیغام دے کر اس پر انسانیت کی انتہا کر دی ۔ اگر نبوت کا ذکر ہو تو ولٰکن رسول اللہ وخاتم النبیین کا تمغہ دے کر نبوت کو آپ ﷺپر مکمل فرما دیا۔ اگر اسلام کا ذکر ہو تو حرا کی تاریک غار سے اس کی روشنی کو ایسے عام کیا کہ کرہ ارضی بلکہ زمین و آسمان میں توحید و رسالت کے مینارے روشن ہوگئے ۔اگر قرآن کا ذکر ہو تو’’ علیٰ قلبک‘‘ کے مضبوط سینے پر اس کو نازل فرمادیا۔ اگر علم کا ذکر ہو تو’’ علمک مالم تکن تعلم‘‘ کا اعزاز دے کر ان کو معلم اعظم بنا دیا ۔ اگر نرمی اور عفو و درگزرکا ذکر ہو تو’’حریص علیکم بالمومنین رؤف رحیم ‘‘کا انہی کو خطاب دے دیا ۔
اگر بشارت و خوشخبری کا ذکر ہو تو بشیراً کی صفت ان کے لیے بنا دی۔ اگر خوف خداوندی کا ذکر ہو تو نذیراً کی طرف نگاہ اٹھاؤ تم انہی کو دیکھو گے۔ اگر تبلیغ دین کاذکر ہو تو ’’داعیاً الی اللہ باذنہ کا مصداق‘‘ کامل تم انہی کو پاؤ گے۔ اگر حسن وجمال کا ذکر ہو تو دیکھو والضحیٰ جیسا چہرہ ہے ۔اگر صداقت کا ذکر ہو تو سبھی صادق آپ ﷺکے در کے غلام ہیں۔ قصہ مختصر ! خلق عظیم کے اس پیکر اعظم کو دیکھو ،جس کا پیغام سچا بھی ہے ، قابل عمل بھی ہے اور موجب امن بھی ہے۔ جس کی ذات کو قادرِ مطلق اور حکیم و خبیر ذات نے اسوئہ حسنہ قرار دیا ہے وہ سراپا عبدیت ، سراپا شرافت ، سراپا علم ، سراپا معرفت ، سراپا حسن و جمال ، سراپا صداقت ، سراپا انصاف ، سراپا عفت و حیا ، سراپا شجاعت ، سراپا عزیمت ، سراپا حکمت ، سراپا اخوت اور سراپا رحمت نظر آتا ہے ۔
امن وآشتی ، راحت و چین ، اطمینان و سکون کو جس ذات کی کسوٹی پر پرکھا جائے، علم و معرفت جس کے کردار و عمل سے پیدا ہو ، نظام عالم اورابدی قوانین جس کی زبان کے مرہون منت ہوں۔ ربیع الاول کے مبارک مہینے میں ’’اذ اخذ اللہ میثاق النبیین لما اٰتیتکم من کتاب و حکمۃ ثم جائکم رسول‘‘ ایفائے عہد کی شکل میں نمودار ہوا۔انسانوں کے خود تراشیدہ قوانین کی سنگلاخ اور پتھریلی زمین سے بے آب و گیاہ وادی مکہ میں ایسی کونپل نے جنم لیا ۔جس نے شجرہ سایہ بن کر خدا کی ساری خدائی کو اپنی پناہ میں لے لیا۔جہالت و لاقانونیت کے بادل چھٹے اور علم و امن کی برکھا رم جھم رم جھم برسی۔یعنی آقا نامدار حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی۔ ظلم وبربریت کی آندھیوں نے منہ موڑ لیا۔ جبر و جور کی چکیاں چکنا چور ہو گئیں ، کفر و شرک کی تاریکیاں دم توڑ گئیں ،مصنوعی معبود اوندھے منہ زمین پر آگرے ، آتش کدے بجھ گئے ، صنم کدوں میں بت پاش پاش ہوئے ، فسق وفجور کی منہ زور لہریں بیٹھ گئیں۔ نفرتیں ا ور عداوتیں ، اْنس و محبت میں بدلنا شروع ہوئیں ، سرکشی و نافرمانی ؛ تسلیم و رضا اور اطاعت کے سانچے میں ڈھلنے لگیں ۔
فاران کی چوٹیوں پر ایک ایسی باز گشت لگی کہ مقصد بعثت پیغمبر ؐکی روح جاگ اٹھی ، ہرطرف خدا کی توحید کے ڈنکے بجنے لگے۔ معاشرے سے ناانصافی کو ختم کیا جانے لگا ، انسان کو خدا کے در پر لانے کی علمی اور عملی جدو جہد شروع ہوئی ، باطل نظام کے بجائے آفاقی اور آسمانی نظام نافذ ہونے لگا ، انسانیت نے سکھ کا سانس لیا ، لڑائی جھگڑے اور کٹنے مرنے کی باتیں ناپید ہونا شروع ہو گئیں۔ خدا کے باغیوں سے معرکے لڑے جانے لگے ، بدر واحد کی وادیاں تکبیر اور گھوڑوں کی ٹاپوں سے گونج اٹھیں۔اسلام آ گیا ، مسلمان کو اپنے معبود حقیقی کی معرفت نصیب ہوئی ۔آپ ﷺ نے ان کے قلوب کا تزکیہ کیا ، ان کے مابین تصفیہ کا عمل جاری کیا ۔
اسی دوران ایک حکم نازل ہوا ترجمہ:’’ جو تمہیں میرا رسول ( محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ) دے اسے لے لو اور جس سے روک دے اس سے رک جاؤ‘‘۔ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عقیدہ توحید دیا ہم لے لیں ، کفر و شرک سے روکا ہم رک جائیں۔حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عقیدہ ختم نبوت دیا،آپ ﷺنے ہمیں قرآن دیا ۔حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سنت دی ہم نے عمل کیا۔ بدعات و رسومات سے روکا ،ہم رک جائیں۔ہمیں سوچنا ہوگا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس مقام پر ہم کو کھڑا کر کے گئے تھے ہم اس سے ہٹ تو نہیں رہے۔ ہم آج یہ فیصلہ کر لیں کہ ایمان و عمل والی زندگی بسر کرنی ہے۔ بدعقیدگی اور بدعملی سے دور رہنا ہے۔ ہمیں سنجیدگی سے اس پر غور کرنا ہوگا کہ ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جب ہمارے اعمال ان کے روضہ اقدس میں پیش کیے جاتے ہیں توآپ ﷺ ہماری کس بات سے خوش ہوتے ہیں۔اس وقت جب حکم کے مطابق آپ ﷺ کی سیرت کو اپنایا جائے ۔اللہ تعالیٰ ہمیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین