امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے 2016ء میں ایجوکیشن اینڈ ٹرینگ کورسز کے فنڈز میں 70 فیصد اضافہ کر دیا ہے
نیویارک ( یس اُردو ) امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ گذشتہ چالیس سالوں سے دنیا کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ قریبی تعلقات پیدا کرنے کی غرض سے ایجوکیشن اینڈ ٹرینگ کورسز کی مد میں کئی بلین ڈالرز خرچ کر چکی ہے ۔ایک رپورٹ کے مطابق 2014ء میں 155 ممالک سے تعلق رکھنے والے 56 ہزار دو سو اعلٰی فوجی عہدیداران نے ان کورسز میں شرکت کی جن پر 815.5 ملین ڈالر خرچ ہوئے ۔ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے 2016ء میں ان کورسز کے لیے اپنے فنڈز میں 70 فیصد اضافہ کر دیا ہے ۔ اس پروگرام میں دنیا بھر کے کرنل اور جرنل حصہ لیتے ہیں جہنوں نے مستقبل میں اہم پیشہ وارانہ ذمہ داریاں سنبھالنا ہوتیں ہیں ۔ یہ کورسز امریکہ سمیت مختلف علاقائی امریکی بیسوں پر کرائے جاتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق 2015ء میں پاکستان کے 238 فوجی افسران کو 177 کورسز کرائے گے جن میں ملٹری ٹرینگ کے علاوہ تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے کورسز بھی شامل تھے ان کورسز پر 53 لاکھ ڈالر خرچ ہوئے۔اسرائیل کے 472 فوجی افسران نے 111 کورسز مکمل کیے جن پر 16 لاکھ ڈالر خرچ ہوئے۔ ہندوستان کے 173 فوجی افسران نے شرکت کر کے 56 کورسز مکمل کیے جن پر 86 لاکھ ڈالر خرچ ہوئے۔ سعودی عرب کے 2217 فوجی افسران نے 1653 کورسز کیے جن پر 13 کروڑ ڈالر خرچ ہوئے۔ افغانستان کے 304 فوجی افسران نے 340 کورسز مکمل کیے اور ان پر تین کروڑ ڈالر۔ بنگلہ دیش کے 167 فوجی افسران نے 57 کورسز کیے جن پر 17 لاکھ ڈالر۔ متحدہ عرب امارات کے 296 فوجی افسران نے 57 کورسز کیے جن پر 89 لاکھ ڈالر۔ عراق کے 291 فوجی افسران نے 229 کورسز مکمل کیے جن پر دس کروڑ ڈالر خرچ ہوئے۔ ایران کے ایک فوجی افسر نے صرف 2014 ء میں حصہ لیا امریکی حکام نے اس کو امریکہ آنے کی اجازت نہیں دی بلکہ ریجنل سنٹر میں ہی اسکو ٹریننگ دی گئی اس مختصر کورس پر صرف 319 ڈالر خرچ ہوئے جبکہ 2015 کے ٹریننگ کیمپ میں ایران کو شامل نہیں کیا گیا۔واضح رہے کہ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے ہر سال منعقدہ اس پروگرام کے بنیادی مقاصد میں یہ بات اہم ہے کہ پوری دنیا میں امریکی تشخص نہ صرف بہتر ہو بلکہ امریکہ کے دنیا کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات میں وسعت آئے اور یہ ممالک مستقبل میں امریکہ کے پارٹنر بنیں اُنکے درمیان ہر معاملے میں ہم آہنگی اور غیر اعلانیہ الائنس ہو اس پروگرام کے تحت نہ صرف انکی فوجی صلاحیتوں میں نکھار پیدا کیا جاتا ہے بلکہ انکی تعلیمی صلاحیتوں کو بھی بہتر بنایا جاتا ہے۔ان کورسز میں ایک موضوع یہ بھی ہے کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا جمہوری حکومتوں کے ساتھ رویہ مثبت رہے۔ ایک تھنک ٹینک ادارے کی رپورٹ کے مطابق جہاں امریکہ اپنی سپریمیسی کو قائم رکھنے کے لیئے کئی بلین ڈالرز خرچ کرتا ہے وہیں یہ سوال بھی اٹھ رہے ہیں کہ امریکیوں کی اکثریت کو یہ پتہ ہی نہیں کہ امریکی حکومتیں انکے ٹیکس کی مد میں جمع ہونے والے ڈالروں کو کہاں خرچ کرتی ہے اگر کسی عام امریکی سے یہ پوچھا جائے کہ کیا اُنکے نالج میں یہ بات ہے کہ امریکی سرمایہ دوسرے ممالک پر مختلف کورسز کے بہانے لُٹایا جارہا ہے تو وہ ” ہکا بکا ” رہ جائے گا۔بعض امریکی پالیسی میکروں کا خیال ہے کہ ایسے پروگراموں اور دوسرے ممالک کو دی جانے والی ملٹری امداد پر چیک اینڈ بیلنس ہونا چاہیے