جماعت اسلامی کے علاوہ کرپشن کیخلاف آواز اٹھانے والے چیمپئن اب خاموش کیوں؟
لاہور: جماعت اسلامی پاکستان کی جانب سے ملک میں کرپشن اوربے ضابطگیوں کے لامتناہی سلسلہ کیخلاف احتساب مارچ کے عمل کے پیچھے اصل مقاصد کیا ہیں؟ کیا اس سے ملک کے اندر موثر احتسابی عمل کے حوالہ سے پیشرفت ہو سکے گی؟۔پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ کرپشن اور لوٹ مار کے سدباب کے نام پر ہونیوالے اقدامات کے نتیجہ میں کرپشن اور لوٹ مار کم ہونے کے بجائے مزید بڑھی اور احتسابی ادارے قوم کو اس دلدل سے نکالنے کے بجائے خود اس دلدل کا حصہ بن گئے ،جس کی وجہ سے یہ رجحان بڑھا اور کرپٹ عناصر خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے رہے ،
تاریخی طور پر جب بھی احتساب کیلئے آمرانہ ادوار یا جمہوری حکومتوں کے وقت میں اقدامات کئے گئے ، اسے ان حکومتوں نے اپنے سیاسی مقاصد کی آبیاری کیلئے خوب استعمال کیا ہے، آمرانہ حکومتیں احتساب کی اس لاٹھی کے ذریعہ پاکستان میں من پسند سیاسی چہرہ کو لانے کی کوشش کرتی رہیں جبکہ جمہوری حکومتوں کی تاریخ احتساب کے نام پر سیاسی انتقام اور سیاسی مخالفین کو کچلنے سے عبارت رہی ہے ،یہی وجہ ہے کہ قوم کوکرپشن اوربدعنوانیوں کے حوالہ سے آج بھی دائروں کا سفر درپیش ہے ، پاناماکیس کے بعد ایک امید بندھی کہ اس بنیاد پر ہونیوالی تحقیقات کے نتیجہ میں شاید قومی دولت لوٹنے والے عناصر کیخلاف گھیرا تنگ کرنے کیلئے کوئی موثر قانون سازی اور احتساب کا کوئی بے لاگ سسٹم سامنے آ سکے گا اور شاید پارلیمنٹ اور حکومت اس میں کوئی کردار ادا کر سکے گی،لیکن عملاً دیکھنے میں آیا کہ پارلیمنٹ اورحکومت اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہیں جبکہ اپوزیشن بھی محض ایک سیاسی شخصیت کو ٹارگٹ کر کے اسے گرانے میں دلچسپی ظاہر کرتی نظر آئی،
عدالت عظمیٰ کے احکامات کے تحت وزیراعظم ہاؤس میں مقیم بڑی شخصیت کو گھربھیجنے کے بعداب کسی کو یاد بھی نہیں رہا کہ ایک موثروبے رحم احتساب اور پاناما لیکس میں ملوث دیگر شخصیات کے گرد گھیرا تنگ کرنے کا مقصد بھی تھا، یہی وجہ ہے کہ نواز شریف کے گرنے کے ساتھ احتساب کا گرنے والا جھنڈا بھی جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے اٹھا لیا اور یہ شاید سراج الحق ہی اٹھا سکتے ہیں کیونکہ انکی جماعت کی سیاست پر تو دومختلف آراہو سکتی ہیں مگر سراج الحق اور جماعت اسلامی کے اکابرین پر کرپشن تو کیا بدعنوانی کے ایک دھیلے کا بھی الزام نہیں،تاہم آج کی صورتحال میں اگر جماعت اسلامی نے احتساب کا پرچم اٹھایا ہے تو اپوزیشن کی وہ جماعتیں کہاں ہیں جو پاناما کا شور مچا کر کرپشن کو اس ملک کا مسئلہ نمبر ایک قرار دیتے ہوئے ہنگامہ کرتے نظر آتے تھے۔
دوسری جانب خود حکومتی اداروں کے اعدادوشمار ثابت کرتے ہیں کہ پاکستان میں روزانہ کی بنیاد پر تقریباً 10سے 12ارب کی کرپشن ہوتی ہے ،تو اب نئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور خود نواز شریف کی جماعت کیلئے حقیقی چیلنج ہے کہ وہ کرپشن کیخلاف ٹھوس اور موثر اقدامات کیلئے پارلیمنٹ کا فورم استعمال کریں کیونکہ کرپشن کیخلاف احتساب کی قانون سازی کیلئے چاہے جتنے بھی لانگ مارچ سڑکوں پر نکال لیں لیکن اصل پیش رفت تو پارلیمنٹ میں ہوتی ہے ، اب چونکہ کرپشن کیخلاف قومی سطح پر ایک شعور اور عوامی سطح پر ایک تحریک موجود ہے تو سڑکوں گلیوں میں بڑے پیمانے کے احتجاج کرنے اورملک میں جاری سیاسی بحران کو وسعت دینے کے بجائے پارلیمنٹ کے اندر دباؤ بڑھایا جائے اور سیاسی قیادت کو جھنجھوڑا جائے کہ آخر وہ کرپشن کے سدباب کیلئے قانون کی حکمرانی کومضبوط کیوں نہیں بناتے ،اصل حقیقت یہی ہے کہ قانون سازی کے ذریعہ ہی کرپشن کے آگے بند باندھا جا سکتا ہے۔