17 جنوری 2018 کو شہدائے ماڈل ٹاؤن کو انصاف دلوانے کےلیے پاکستان کی بہت سی سیاسی جماعتیں لاہور میں ایک بہت بڑا اجتماع کرنے کےلیے نکلیں۔ پاکستان تحریک انصاف، پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان عوامی تحریک ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ مل کر لاہور میں ایک بہت بڑا پاور شو کرنے میں ناکام رہے۔ لاہور کے جلسے میں عمران خان اور شیخ رشید نے ماڈل ٹاؤن کے شہداء کو پس پشت ڈال کر اپنی سیاسی تقریریں کرکے اصل مقصد کو ضائع کر دیا۔ تمام اخبارات اور نیوز چینلوں پر شہدائے ماڈل ٹاؤں کا کوئی ذکر سامنے نہیں آیا، ہر کوئی عمران خاں اور شیخ رشید کی تقریروں پر بحث کرتا ہوا نظر آیا۔
سیاست ایک ایسا کھیل ہے جس میں اپنے مخالفین کی تمام تر کمزرویوں سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ جو سیاستدان اپنے اصل مقاصد کو نظر انداز کرتا رہتا ہے اور جس وقت جس نکتے پر بات کرنا ہو، اسے چھوڑ کر کسی اور نکتے پر اپنی بات یا تقریر شروع کردیتا ہو، لوگ اسے پسند نہیں کرتے۔
کھیل، تماشے اور شعبدہ بازیاں عوام بہت دیکھ چکے ہیں۔ اب عوام چاہتے ہیں کہ باتوں سے نہیں حقیقت میں کوئی تبدیلی آئے تو ہم یقین کریں گے۔ لاہور میں بھی پاکستان کی ان بڑی سیاسی پارٹیوں کے ساتھ ایسا ہی کچھ ہوا۔ ہر سیاسی پارٹی دوسری سیاسی پارٹی سے امید لگائے ہوئے تھی کہ وہ اپنے سیاسی ورکز اور سیاسی لیڈران کو لے کر آئے گی مگر ایسا کسی بھی سیاسی پارٹی نے نہ کیا کیونکہ ان تمام سیاسی جماعتوں کی کوئی بھی میٹنگ ایک ساتھ نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی اس جلسے کو منعقد کرنے کےلیے کوئی پروگرام ترتیب دیا گیا تھا جس کی وجہ سے ماڈل ٹاؤن کے شہداء کے حق میں منعقد ہونے والا لاہور کا یہ جلسہ ناکام ہو گیا اور تمام تر بحث عمران خان اور شیخ رشید کی تقریروں پر ہونے لگی۔
پارلیمنٹ ہمارے ملک کا مقدس اور سپریم ادارہ ہے۔ اس کے خلاف بات کرنے سے پہلے ہر ایک کو ضرور سوچنا چاہیے کہ ہمارے ملک کا آئین و قانون اس ادارے ہی کو مرتب کرنا ہوتا ہے۔ ہاں، یہ ہوسکتا ہے کہ کبھی کبھار مقدس اداروں پر کچھ ایسے لوگ قابض ہوجاتے ہیں جو ان اداروں کے اہل نہیں ہوتے۔ اس میں ان نااہل لوگوں کاکوئی قصور نہیں ہوتا بلکہ اہل افراد زیادہ قصوروار ہوتے ہیں، جو اُن نااہل لوگوں کو ان اداروں تک پہنچے کا راستہ دیتے ہیں۔ اگر اہل لوگ ان نااہلوں کو راستہ نہ دیں تو وہ ان اداروں تک کبھی بھی نہیں پہنچ سکتے۔ جب پارلیمنٹ میں نااہل لوگ پہنچ کر اسے نقصان پہنچاتے ہیں تو ان لوگوں کا اتنا قصور نہیں جتنا اہل اور قابل لوگوں کا ہے کیونکہ جب اہل لوگ بزدل ہوجائیں تو نااہل افراد ان اداروں پر قابض ہوتے ہیں۔ اس لیے آپ پاکستان کے کسی بھی ادارے کو غلط نہیں کہہ سکتے۔ البتہ اس ادارے پر قابض لوگوں کو آپ ضرور غلط کہہ سکتے ہیں۔ اسی لیے تو ہمارے آقا حضرت محمد ﷺ نے فرمایا ہے کہ جابر آقا کے سامنے کلمہ حق کہنا سب سے بڑا جہاد ہے۔
آج کل ہمارے ملک کی صورت حال کچھ اس طرح ہوچکی ہے: ایک پیر صاحب کے پاس ایک آدمی جاتا ہے اور پیر صاحب سے کہتا ہے کہ پیر صاحب میرے لیے دعا کریں تو جواب میں پیر صاحب کہتے ہیں کہ اللہ ہر ایک کی دعا سنتا ہے۔ آپ خود اپنے لیے دعا کریں گے، تب بھی اللہ تعالی آپ کی دعا قبول کرے گا۔ آدمی پیر صاحب سے کہتا ہے کہ میری دعا قبول نہیں ہوتی، آپ میرے لیے دعا کیجیے تاکہ میری دعا قبول ہوجائے، تو پیر صاحب کہتے ہیں کہ بتاؤ تمھاری کیا دعا ہے؟ آدمی کہتا ہے، میرے پڑوسی کے پاس ایک سرخ رنگ کی گائے ہے، آپ دعا کیجیے کہ وہ گائے مرجائے۔ یہ بات سن کر پیر صاحب کہتے ہیں کہ آپ حسد کرنے کے بجائے اپنے پڑوسی کی گائے سے خوش ہوں تو اللہ تعالی آپ کو اس سے اچھی گائے دے گا۔ یہ بات سن کر وہ آدمی کہتا ہے کہ پیر صاحب یہ بات تو ٹھیک ہے کہ مجھ کو اس سے اچھی گائے مل جائے گی مگر اس کی یہ گائے مرنی چاہیے۔
من حیث القوم ہماری سوچ یہ ہوچکی ہے کہ ہم اپنی گائے حاصل کرنے کی کوشش کو چھوڑ کر دوسروں کی گائے کو مارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم اپنے بھائی کی خوشی میں خوش نہیں ہوتے بلکہ اپنے بھائی کو خوش دیکھ کر جل جاتے ہیں۔ اور جب کوئی غمگین ہوتا ہے تو اسے دلاسہ اور حوصلہ دینے کے بجائے کہتے ہیں کہ اس کے ساتھ جو ہوا ہے، اچھا ہوا ہے اور اس کے غم پر ہم لوگ خوش ہوتے ہیں۔
ہماری حالت اس مکھی کی طرح ہوچکی ہے جو صاف ستھرے جسم کو چھوڑ کر جسم کے گندے حصے پر بیٹھنا پسند کرتی ہے۔ ہم ہر کسی کی اچھائیوں کو چھوڑ کر اس کی برائیوں کو تلاش کرتے ہیں۔ جس دن ہمارے اندر سے یہ خامیاں ختم ہوجائیں گی، اس دن ہمارے ادارے اور اداروں کے سربراہان بھی ٹھیک ہوجائیں گے۔ غلط لوگوں کو ان اداروں تک پہنچے کےلیے جگہ نہیں ملے گی اور کوئی یہ بھی نہیں پوچھے گا کہ مجھے کیوں نکالا، کیونکہ جب انسان کا ضمیر زندہ ہوتا ہے تو پھر ضمیر بندے کو بتا دیتا ہے کہ تمہیں کیوں نکالا گیا ہے۔
ہمارے ضمیر مردہ ہوچکے ہیں اور ہم اپنے ضمیر کی آواز سننا ہی پسند نہیں کرتے کیونکہ ضمیر کبھی غلط فیصلہ کرنے پر انسان کا ساتھ نہیں دیتا۔ جب ہم مسلسل اپنے ضمیر کی آواز کو نظرانداز کرتے جاتے ہیں تو پھر ہمارا ضمیر مردہ ہو جاتا ہے اور انسان کے اندر ایک غلط فہمی پیدا ہوجاتی ہے؛ وہ یہ کہ میں جو کچھ کررہا ہوں ٹھیک کر رہا ہوں، چاہے وہ فیصلہ ماڈل ٹاؤن کے لوگوں کو قتل کرنے کا ہو، باپردہ عورتوں کو بے پردہ کرنے کا، بچوں کو زیادتی کے بعد قتل کردینے پر احتجاج کرنے والوں پر گولیاں چلانے کا ہو، غرض ہر فیصلہ درست لگتا ہے۔
ماڈل ٹاؤن میں ہر آنکھ نے دیکھا کہ منہاج القرآن کے لوگوں کو کیسے مارا گیا جبکہ قتل کرنے والوں کی سی سی ٹی وی ویڈیوز بھی موجود ہیں۔ اپنے حکمرانوں سے میرا ایک سوال ہے، اور عرض ہے کہ میرے اس سوال کو غیر سیاسی ہی رکھا جائے۔ اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود ماڈل ٹاؤن کے شہداء کو انصاف کیوں نہیں دیا گیا؟ کیا وہ پاکستان کے شہری نہیں تھے؟ کیا وہ عورتیں ہماری ماؤں اور بہنوں جیسی نہیں تھیں؟ کیا وہ مرد ہمارے بھائیوں جیسے نہیں تھے؟ کیا ان کے جسموں سے خون نہیں نکلا تھا؟ اگر ایسا ہے تو ان شہداء کو انصاف ضرور دیجیے تاکہ انسانیت کا تقدس قائم رہ سکے اور پاکستان کے لوگوں کا اپنے ملک میں انصاف قائم کرنے والے اداروں پر یقین پختہ ہوجائے۔