موہن مالہی بچپن سے درگاہ قاسم شاہ کے عقیدت مند ہیں، لیکن چچا کے انتقال کے بعد اب وہ اس مزار کے مجاور بھی بن گئے ہیں۔صحرائے تھر کے شہر مٹھی کے وسط میں واقع اس درگاہ پر ماہ رمضان میں روزانہ روزے داروں کی افطاری کا بندوبست کیا جاتا ہے۔درگاہ کے اندر ہی باورچی خانہ موجود ہے، جہاں ہندو مالہی برادری کے نوجوان خود چاول کی دیگیں تیار کرتے ہیں، جو آلو اور چنے کی بریانی پر مشتملہوتی ہیں۔موہن لال خود پورے رمضان روزے رکھتے ہیں جبکہ ان کے اہل خانہ حضرت علی کی شہادت یعنی 21واں روزہ اور شب قدر کا 27واں روزہ رکھتے ہیں۔موہن لال نے تیسری جماعت سے روزے رکھنے شروع کیے اور انھیں یہ عقیدت وراثت میں ملی۔ یہ درگاہ مالہی برادری کے محلے کے درمیان میں واقع ہے۔ مالہی برادری کے لوگ مٹھی میں کسی زمانے میں کنووں سے مشکوں کے ذریعے پانی بھر کر گھروں تک پہنچاتے تھے۔ بعد میں مٹھی نے جب جدید شہر کی شکل اختیار کر لی تو ان کے کنویں وسط شہر میں آ گئے اور ان کی ملکیت کے اچھے دام ملے، اس طرح وہ کاروباری بن گئے۔’30، 35 سال قبل یہاں ایک درخت تھا اور اینٹوں کے ساتھ قبر بنی ہوئی تھی۔ جو منتی آتا تھا اس کی منت پوری ہو جاتی تھی تو وہ چڑھاوا چڑھاتا تھا۔ ان دنوں میں ہماری برادری کے پاس کچھ نہیں تھا، پانچ پیسے کا بھی چڑھاوا چڑھاتے تھے اور اب جب کہ برادری خوشحال ہے، وہ آج بھی اسی طرح تعاون کرتی ہے۔ کوئی چاول کی دیگ دے دیتا ہے، کسی نے پانی کا ٹینکر فراہم کر دیا اور کوئی برف کا بندوبست کر دیتا ہے۔‘شام سے ہی سے آس پاس کے بچے مزار کے احاطے میں جمع ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور بےخوف وہ خطر وہاں رات نو بجے تک موجود رہتے ہیں۔موہن لال کے مطابق بزرگ قاسم شاہ کی بچوں کے ساتھ محبت تھی۔ ’وہ بچوں کو خود پر سوار کرتے اور کھیلتے، اسی سلسلے کو یہاں جاری رکھا ہوا ہے۔‘روایتی ساڑھی اور چولی گھاگھرا پہنے خواتین بھی سلام کے لیے آتی ہیں جو افطار تک موجود رہتی ہیں۔ تھر کے ہندو مسلمانوں کے ساتھ عید کی خوشی اور محرم کے غم میں شریک ہوتے ہیں جبکہ مسلمان ان کے ساتھ دیوالی اور ہولی مناتے ہیں۔موہن لال کا کہنا ہے کہ تھرپارکر میں مذہب کی بنیاد پر تفریق نہیں ہے۔ ’والدین نے ایک درس دیا تھا جو محبت کا تھا کہ یہ تیرا ماما ہے، یہ تیرا چچا ہے، یہ نہیں بولا کہ یہ مسلمان ہے، ہندو ہے، سکھ ہے یا مینگھواڑ ہے۔ آج بھی ہم ہندو مسلم یہاں بھائیوں کی طرح رہتے ہیں۔‘مٹھی شہر میں واقع درگاہ قاسم شاھ کا تمام لنگر مقامی شہریوں کی معاونت سے جاری رہتا ہے۔ رمضان میں مسلمان اور ہندو دونوں ہی عقیدت مند یہاں گھروں سے پھل اور دیگر اشیا بھیجتے ہیں۔دھارو مل مالہی بھی اس درگاہ کے عقیدت مند ہیں، جو روزانہ کے کام کاج کو اپنا فرض قرار دیتے ہیں۔ ’روزانہ کی بنیاد پر کھانا کھلاتے ہیں اور افطار بھی کراتے ہیں، ہم میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو خود بھی روزہ رکھتے ہیں، ہمیں اس سے بڑی دعائیں ملتی ہیں۔‘دھارو مل کا کہنا ہے کہ یہاں ہندو یا مسلم کا چکر نہیں ہے، یہاں مسلم بھی بھائی ہے اور ہندو بھی بھائی ہے، درگاہ پر مسلم بھی دیتے ہیں اور ہندو بھی دیتے ہیں یہاں ایک ہی نام ہے، ہمارے مرشد قاسم شاہ مسلمان ہیں، جب انھیں مانتے ہیں تو مسلم برادری تو ان کی ہے ہم ان کے ساتھ بیٹھ کر کھاتے ہیں۔‘درگاہ قاسم شاہ سمیت مٹھی شہر میں ایک درجن کے قریب مسلمان بزرگوں کی درگاہیں موجود ہیں اور تمام ہی کے منتظمین ہندو برادری سے تعلق رکھتے ہیں، درگاہ مرد شاہ کے مزار پر تو ہر سال بکرے ذبح کیے جاتے ہیں اور اس کا گوشت تیار کر کے عقیدت سے کھایا جاتا ہے۔مسلمان عقیدت میں عید پر شہر میں گائے کی قربانی نہیں کرتے۔ بعض مذہبی اور جہادی تنظیموں نے یہ کوشش کی تھی لیکن لوگوں نے ناکام بنا دی، جبکہ شہر میں آج بھی گائے کا گوشت فروخت نہیں ہوتا۔دھارو مل مالہی کہتے ہیں کہ ’ہم میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو خود بھی روزہ رکھتے ہیں، ہمیں اس سے بڑی دعائیں ملتی ہیں‘مذہبی جماعتوں اور مدارس کے فروغ کے بعد مٹھی شہر کی بیرونی صورتحال تبدیل نظر آتی ہے، لیکن لوگوں کے اندر آج بھی محبت اور عقیدت موجود ہے، مذہب اور رسم رواج مختلف سہی، مگر دونوں کی زبان ایک ہی ہے۔روزے کے آسان کے ساتھ موہن لال نے سر پر سفید کپڑا باندھ کر دعا مانگی اور اسی طرح افطار کیا جس طرح کوئی مسلمان کرتا ہے۔