لاہور( ویب ڈیسک) آج کل ہمارے معاشرے میں دیندار گھرانوں سے تعلق رکھنے والے والدین اپنی بچیوں کے مناسب رشتوں کیلئے نہایت پریشان نظر آتے ہیں ۔ دیندار گھرانوں کی بچیاں مناسب اور دیندار رشتے کے انتظار میں عمریں گنوا رہی ہیں ۔ ایسا ہی کچھ معاملہ نجی ٹی وی پروگرام میں بھی سامنے آیا جب ایک دیندار خاتون نے پروگرام کے میزبان کو ایک سوال بھیجا جس میں اسخاتون نے سوال کرتے ہوئے پوچھا کہ میری عمر 30سال ہے۔ میں ایک باپردہ خاتون ہوں اور دین پر مکمل عمل کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ میں دیندار آدمی سے شادی کرنا چاہتی ہوں مگر میرے رشتے ایسے افراد کے آتے ہیں جو نماز تک نہیں پڑھتے، کیا میں نماز نہ پڑھنے والے شخص سے شادی کر لوں یا کسی دیندار آدمی کے رشتے کا انتظار کروں۔ خاتون کے سوال کا جواب دیتے ہوئے پروگرام کے مہمان ایک مذہبی سکالر کا کہنا تھا کہ شادی کے حوالے سے چند اصولی چیزوں کو دیکھا جاتا ہے، جب بھی رشتہ آتا ہے تو اس میں دو تین چیزوں کو دیکھنا چاہئے، ایک چیز تو یہ دیکھنی چاہئے کہ اس شخص کی دینی حالت کیا ہے۔ شریعت میں دینداری سے مراد وہ شخص مکمل دیندار ہو جبکہ ہمارے ہاں دینداری سے مراد یہ لی جاتی کہ بندہ نماز پڑھتا ہو اور اس کا ظاہری شباہت اس کی دینی ہو، یہ چیز دیکھ لیں، دوسرے نمبر پر یہ دیکھیں کہ وہ بندہ اخلاق میں کیسا ہے۔ جس سے متعلق چھان بین کرنے سے معلوم ہو جائے گا، تیسرے
نمبر پر یہ دیکھیں کہ وہ سماجی اور تمدنی اعتبار سے آپ کے جوڑ کا ہے یا نہیں۔ مذہبی سکالر نے خاتون کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اگر ایسا کوئی رشتہ ان کیلئے آتا ہے کہ وہ سماجی اور تمدنی اعتبار سے اور اخلاقی لحاظ سے ان کیلئے مناسب ہے لیکن نماز اور دینی اعتبار سے اس کے اندر کوتاہی ہے تو اس کیلئےیہ خاتون یہ کام کر سکتی ہیں کہ شادی کے بعد اس شخص کو یہ نمازی بنا دیں۔ حدیث شریف میں تو ایسی بیوی کی تعریف آئی ہے جو ایسا کرے ۔ حضور اکرمﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ خوش ہوتے ہیں ایسی عورت سے جو شوہر کو نماز کیلئے اٹھاتی ہے اور اگر وہ نہیں اٹھتا یا کسل مندی کا مظاہرہ کرتا ہے تو بیوی اس کو جگانے کیلئے اس پر پانی کے چھینٹے ڈال دے،یعنی دین کے کاموں میں اپنے شوہر کی ممد و معاون بن جانا۔ اس میں کوئی حرج نہیں لیکن اس انتظار میں کہ میرے معیار کے مطابق کوئی شخص آئے گا اور خاتون اپنی عمر گزاردے جو کہ بالکل بھی مناسب نہیں۔ اگر آپ کو اس میں کمی محسوس ہوتی ہے اور وہ عبادت میں کمی رکھتا ہے تو خاتون اپنی کوشش سے اس کمی کو دور کرنے کی سعی کرے۔ مذہبی سکالر کا کہنا تھا کہ ظاہر ہےکہ اگر کوئی شخص کسی پردہ دار خاتون سے شادی کرے گا تو اس کے ذہن میں یہ بات ہو گی کہ یہ نمازی اور پردہ دار ہے ، تو جب یہ آئے گی تو یہ نماز پڑھنے کی تلقین کرے گی۔ اس کیلئے بہت اخلاق اور نرمی کی ضرورت ہے، ہمارے ہاں لوگ طعنے اورطنز کر کے نماز کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں جبکہ دین کا اسلوب طعنہ و تشنیع یا طنز نہیں ہے ۔ ہمارے ہاں لوگ اسیوجہ سے بچیوں کے رشتے میں بہت تاخیر کر دیتے ہیں جبکہ رشتوں کی تاخیر دین میں پسند نہیں فرمائی گئی۔