لاہور ;پاکستان کے تمام قبائلی علاقے قدرتی حسن سے کس قدر مالا مال ہیں۔ ان علاقوں سے باہر رہنے والے آج تک اس سے لاعلم ہیں۔ وہاں دہشت گردوں کے خلاف طویل عرصہ تک جاری رہنے والی جنگ اور دہشت گردوں کے صفایا کے بعد کچھ علاقوں میں بیرونی سیاحوں کو
نامور کالم نگار خالد بیگ اپنے کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔ جانے کا موقع ملا تو وہ دنگ رہ گئے۔ وہ حیران تھے کہ جنت نظیر یہ علاقے کس طرح سیاحت کے دنیا بھر میں پائے جانے والے رسیا لوگوں سے پوشیدہ تھے۔ انہوں نے اپنے سفر کی خوشگوار یادوں کو ویڈیو کیمروں میں عکس بند ہی نہیں کیا بلکہ مختصر دورانیے کی شکل میںاپنے تاثرات سوشل میڈیا پر سیاحت کے شوقین اپنے دوستوں کو ارسال بھی کئے۔ انہیں کے توسط سے یہ فلمیں پاکستان میں بھی وائرل ہوئیں تو پاکستانی عوام میں بھی ان علاقوں کے حسن کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا جی چاہا۔ گو فی الحال سکیورٹی کے معاملات اور سرحد پار سے آئے روز حملوں‘ بہت سے علاقوں میں دہشت گردوں کی طرف سے بچھائی جانے والی بارودی سرنگوں کے خطرات اور اسی طرح کے دیگر مسائل کی وجہ سے پاکستان یا بیرون ملک سے آنے والے سیاحوں کے لئے ہر جگہ جانا ممکن نہیں۔ اسکے باوجود جہاں تک سیاح جا سکتے ہیں۔ سیاحوں کی آمد کی وجہ سے وہاں کی مقامی آبادی کے لئے روزگا کے نئے موقع سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ ان علاقوں میں دہشتگردی کے خاتمہ کے بعد ضرورت اس بات کی تھی کہ منظور پشتین جیسے نوجوان اپنے قبائلی نوجوانوں کے بہتر مستقبل کے لئے حکومت
سے ان علاقوں میں تعمیر نو کا کام جلد از جلد مکمل کرنے کا مطالبہ کرنے کے ساتھ ہی خود بھی اس سلسلے میں ریاستی اداروں کا دست و بازو بنتے۔ دنیا بھر میں قبائلی علاقوں سے جڑے بدامنی‘ دہشت گردی اوردیگر جرائم سے جڑی کہانیوں اور اس حوالے سے پائے جانے والے منفی تاثر کو دور کرنے کے لئے ایک مؤثر مہم کا اہتمام کرتے‘ سرحد پار افغانستان میں موجود اپنے رابطہ کاروں کو پیغام دیتے کہ بس بہت کشت و خون ہو گیا۔ پاکستان کے قبائلی عوام اپنے علاقوں میں خونی کھیل کو مزید جاری رکھنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ پاک افغان سرحد پر نصب کی جانے والی خاردار باڑ کو دونوں اطراف بیرونی مسلح مداخلت کی روک تھام کے لئے ضروری قرار دیتے ہوئے بجائے اپنے علاقوں کو دنیا بھر کے سیاحوں کیلئے مزید پرکشش بنانے کی عملی کوششوں کا آغاز کرنے کے وہ تحریک تحفظ موومنٹ کے نام پر الٹا ان تمام اقدامات کی مخالفت پر تل گئے جو قبائلی علاقوں کو آئندہ دہشت گردوں اور بیرونی مداخلت کا گڑھ بننے سے روکنے کیلئے ناگزیر ہیں۔ پی ٹی ایم کی طرف سے قبائلی علاقوں میںسکیورٹی سے متعلق کئے جانے والے بعض مطالبات کو فوری طور پر حل کر دیا گیا۔ اس کے باوجود قوم پرستی کی بنیاد پر صوبہ خیبر پی کے
کو افغانستان کا حصہ ثابت کرنے جیسی کوششیں محمد خان اچکزئی کی طرف سے سامنے آئیں تو ساتھ ہی پاکستان مخالف قوتوں نے بھی پی ٹی ایم کی حمایت شروع کر دی۔ اسی دوران آئین میں ترمیم کے ذریعے قبائلی علاقوں کو صوبہ خیبر پی کے میں ضم کردیا گیا۔ یہ ایک تاریخی فیصلہ تھا جسے چاروں صوبوں میں سوائے چند مخصوص قوم پرستوں کے عوام میں ہر سطح پر سراہا گیا۔ قبائلی علاقوں کا انضمام ایسے وقت میں ہوا جب قومی انتخابات سر پر تھے انتخابی شیڈول کا اعلان ہوا تو خیبر پی کے کاحصہ بننے والے قبائلی علاقوں میں بھی قومی اسمبلی کے انتخابات کرانے کا فیصلہ ہوا۔ اس عرصہ میں پی ٹی ایم قوم پرستی کے نام پر ریلیوں و جلسوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھی۔ سوات میں منعقد کئے گئے جلسے میں مقامی آبادی کے ردعمل اور قبائلی علاقوں میں شدید ردعمل کے بعد پی ٹی ایم نے جرگہ میں بیٹھنے اور بات چیت کے ذریعے مسئلے کا حل نکالنے پر آمادگی ظاہر کی تو جرگہ کے بے نتیجہ اجلاس شروع ہو گئے۔ تاہم بات چیت کا عمل جاری رکھنے اور حتمی فیصلے تک پی ٹی ایم نے جلسے جلوس اور ریلیاں نہ نکالنے کا مثبت اعلان کر دیا۔ الیکشن کیلئے قومی نمائندوں نے اپنے کاغذات جمع کرانے شروع کئے
تو پی ٹی ایم کی کور کمیٹی کے اہم اراکین میں سے محسن داور‘ علی وزیر‘ عبداﷲ ننگیال‘ ارشاد ٹونی‘ حامد شیرانی‘ عبدالواحد اور جمال مالیار نے بھی آزاد امیدوار کے طور پر اپنے کاغذات جمع کرا دئے جسے ملک بھر میں خوشگوار حیرت کے ساتھ بھرپور پذیرائی ملی۔ کیونکہ حب الوطنی کا تقاضہ بھی یہی تھا کہ داخلی مسائل کو پارلیمنٹ میں حل کیا جائے مگر افسوس منظور پشتین اور اس کے گمنام ساتھیوں نے قومی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے والے اپنے ساتھیوں کو پی ٹی ایم سے نکال کر واضح کر دیا کہ وہ پاکستان اور پاکستان کی پارلیمنٹ کو نہیں مانتے حالانکہ محسن داوڑ اور علی وزیر کا شمار پی ٹی ایم کے اہم رہنماؤں میں ہوتا ہے جو ہر جرگہ میں پی ٹی ایم کی نمائندگی کرتے رہے۔ لوگ بھی ان دونوں کو ہی منظور پشتین کے بعد پی ٹی ایم میں اہم اور بااثر لیڈر تصور کرتے رہے۔ اب اگر پی ٹی ایم یہ کہے کہ ان کی تحریک پختونوں کے حقوق کے لئے سیاست میں حصہ لینے کے لئے نہیں تو پھر معاف کیجئے پی ٹی ایم پختونوں کے تحفظ کی تحریک نہیں ہے۔