تحریر: پروفیسر رفعت مظہر
کتنا عجیب سیاسی سفر، کہاں مینارِ پاکستان پر اکتوبر 2011ء کے جلسے کی بلندی اور کہاں بلدیاتی انتخابات میںذلت آمیز پستی ۔ہمیں اکتوبر 2011ء کے بعد کا وہ ماحول بھی اَزبَر جب گھر گھر میں کپتان کے چرچے۔ تب لوگ کہتے تھے کہ ہرگھر سے بھٹو تو نہیں نکلا لیکن ”سونامیہ” ضرور نکلتا ہے۔ کپتان صاحب کی شخصیت کا جادو سَرچڑھ کر بول رہاتھا اور پاکستان میں سوائے تحریکِ انصاف کے اور کوئی سیاسی جماعت نظرہی نہیں آتی تھی ۔پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے لیے کپتان صاحب بہت مرغوب ومحبوب اورکالم نگاردھڑا دھڑ اُن کی شان میں قصیدے لکھ رہے تھے۔ وہ جہاںبھی جلسہ کرتے خلقِ خُدا ٹوٹ ٹوٹ پڑتی۔۔۔۔
پھرچشمِ فلک نے یہ عجب نظارہ بھی دیکھاکہ خاںصاحب کولاہورکے صرف ایک حلقے (122) کے ضمنی انتخاب میںجیت کے لیے گلی گلی کی خاک چھاننی پڑی لیکن کامیابی پھربھی مقدرنہ ٹھہری۔حقیقت یہی کہ کپتان صاحب شہرت کی بلندیوںپر پہنچ کرتیزی سے پستیوںکی جانب گامزن ہوگئے ۔ وہ غلطی پہ غلطی کرتے چلے گئے اورنوازلیگ اُن غلطیوںسے بھرپورفائدہ اُٹھاتی رہی ۔پہلی غلطی یہ کہ اُنہوںنے نوجوان سونامیوںسے وعدہ توصاف ستھری قیادت دینے کاکِیا لیکن اپنے گرد کرگسوںکا انبوہِ کثیراکٹھا کربیٹھے جس سے نہ صرف سنجیدہ طبقے بلکہ ”سونامیے” بھی بَددِل ہوئے۔
دوسری غلطی 2013ء کے انتخابات سے پہلے ”اِنٹراپارٹی الیکشن” جس میںکھُلم کھُلادھاندلی ہوئی اورپیسے کابے دریغ استعمال بھی ۔نتیجہ یہ کہ تحریکِ انصاف اندرونی ٹوٹ پھوٹ کاشکار ہوگئی ۔تیسری غلطی ، تقریباََ تمام سیاسی جماعتوںکے بارے میں انتہائی غیرپارلیمانی زبان کااستعمال جسے سنجیدہ طبقوںنے شدید نا پسند کیا ۔چوتھی اورسب سے بڑی غلطی 2013ء کے انتخابات کو تسلیم نہ کرنااور دھاندلی کاشور مچاتے ہوئے احتجاجی سیاست کی طرف رُخ۔ حیرت ہے کہ اُدھرقومی وبین الاقوامی سَرویز خاںصاحب کی مقبولیت کو پستیوں کی طرف گامزن دیکھ رہے تھے لیکن پھربھی وہ پتہ نہیں کس برتے پہ کہتے رہے کہ تحریکِ انصاف دوتہائی اکثریت حاصل کرلے گی۔ انتخابات ہوئے اورنتیجہ سنجیدو طبقوںاور بین الاقوامی سرویزکے عین مطابق نکلااوردو تہائی اکثریت کی دعویدار تحریکِ انصاف تیسرے نمبرپر۔
خاں صاحب کی ایک اور غلطی خیبر پختونخوا حکومت کا حصول تھا۔ اُنہوں نے حکمرانی کے شوق میں حکومت توبنالی مگر پھراُس کی طرف مطلق توجہ نہ دی ۔اگروہ خیبرپختونخوا کو اپنے دعووں کے عین مطابق ”ماڈل صوبہ” بنانے کی تگ ودَوکرتے توہوسکتاتھاکہ 2018ء کے انتخابات اُن کے خوابوںکی تعبیر میںڈھل جاتے لیکن اُنہیںتو وزیرِاعظم بننے کی جلدی ہی بہت تھی اِس لیے اُنہوںنے احتجاجی سیاست اوردھرنوںکا راستہ اپنایاجس نے رہی سہی کسربھی نکال دی۔خاںصاحب کوتو یقین دلایا گیاتھا کہ اُدھر خاںصاحب ڈی چوک اسلام آبادپہنچے اوراِدھر امپائرکی انگلی کھڑی ہوئی لیکن وہ انتظار ہی کرتے رہے لیکن ”انگلی” کھڑی نہ ہوسکی۔ بہترہوتا کہ خاں صاحب مولانا قادری کی طرح کوئی نہ کوئی بہانہ بناکر بستربوریا لپیٹ لیتے لیکن اُن کی ضد اورہَٹ دھرمی نے اُنہیں روکے رکھا۔ 126 روزہ دھرنے میں خاں صاحب کے حصّے میںکچھ بھی نہیںآیا البتہ سیاسی طورپر اُنہیں بے تحاشہ نقصان ضرور پہنچا۔
یہی وجہ ہے کہ دھرنوںکے بعدجتنے بھی ضمنی الیکشن ہوئے کسی ایک میںبھی تحریکِ انصاف سُرخ رو نہ ہوسکی ،حتیٰ کہ اُن کی اپنی حکومت کے زیرِ انتظام ہری پورمیں ہونے والے ضمنی انتخاب میںاُن کے اُمیدوار کو 40 ہزارسے زائد ووٹوںسے شکست کاسامنا کرناپڑا حالانکہ عام انتخابات میںیہ فرق محض چھ ،سات سوووٹوںتک محدودتھا۔
ویسے توتحریکِ انصاف کے لیے لال حویلی والے شیخ رشیدہی کافی تھے لیکن ہوایہ کہ چودھری سروربھی گورنری ”تیاگ” کرتحریکِ انصاف سے آن ملے اورستم بالائے ستم یہ کہ اُنہیںپنجاب کاچیف آرگنائزر بھی بنادیا گیاجس کاشاہ محمودقریشی نے بہت برامنایا اور وہ عملی طورپر ”نُکرے” لگ گئے۔ نتیجہ سب کے سامنے کہ بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میںتح ریکِ انصاف کوہزیمت کا سامنا کرناپڑااوروہ تیسرے نمبرپر آئی البتہ چودھری سروربڑے فخرسے کہہ رہے تھے کہ اُنہوںنے جو اندازہ لگایاوہ بالکل درست نکلاکیونکہ اُنہوںنے توتحریکِ انصاف کے لیے دَس فیصد کااندازہ لگایاتھا جودرست نکلا ۔
19 نومبرکو بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے پرنتیجہ پھروہی ۔اِس مرحلے پرخاںصاحب کواپنے آبائی حلقے عیسیٰ خیل میںبھی بدترین شکست کاسامنا کرنا پڑا اور تحریکِ انصاف 16 میںسے 15 نشستیںہار گئی۔ اب چودھری سرورایک دفعہ پھرکہہ رہے ہیں ” ضابطۂ اخلاق کی دھجیاںاُڑائی گئیں ،اربوںروپے کے فنڈزسے نالیاںاور گلیاں بن رہی ہیںاورسوئی گیس کے پائپ بچھائے جارہے ہیں۔ عوام جانتے ہیں کہ بلدیاتی انتخابات سے حکومت تبدیل نہیںہوتی اِس لیے بلدیاتی انتخابات حکومت کے ہوتے ہیں”۔ اِس کے باوجود بھی وہ خوش کہ تحریکِ انصاف نے پہلے مرحلے سے زیادہ ووٹ لیے ۔اگر چودھری صاحب کی اِس بات کوتسلیم کرلیا جائے کہ بلدیاتی انتخابات حکومت ہی کے ہوتے ہیں تو پھر سوائے حکمران جماعت کے کوئی بھی سیاسی جماعت بلدیاتی انتخابات میں حصّہ ہی نہ لے۔
ویسے اطلاعاََ عرض ہے کہ صوبہ سندھ میںپیپلز پارٹی بلاشرکتِ غیرے حکمران ہے لیکن پھربھی بدین (جوپیپلز پارٹی کاگڑھ سمجھا جاتاہے) میں آصف زرداری صاحب کے سابق دوست اور موجودہ بدترین دشمن ذوالفقار مرزا نے پیپلزپارٹی کا جنازہ نکال دیا اور حیدرآباد ایم کیوایم لے اُڑی ۔نوازلیگ کے کسی بھی نامی رہنماء نے سرے سے سندھ کارُخ ہی نہیںکیا لیکن پھربھی اُس کے حصّے میں100 سے زائد نشستیں آئیں جبکہ بلاول زرداری کے نئے ”چاچا” عمران خاںسندھ میںجلسے کر کرکے تھک بلکہ ”ہَپھ” گئے لیکن ملاکیا ؟صرف 8 نشستیں۔ تسلیم کہ حکمران جماعت کاتھوڑا بہت اثر ضرورہوتا ہے لیکن اتنابھی نہیںجتنا چودھری صاحب بتارہے ہیں۔اگر ایساہی ہوتا تو وفاقی وزیرسارہ افضل تارڑ کے والد افضل حسین کو شکست کاسامنا نہ کرناپڑتا ۔
دوسرے مرحلے کے انتخابات کی ہمارے نزدیک سب سے بڑی خوبی یہ کہ پہلے مرحلے کی طرح خونریزی دیکھنے میںنہیںآئی اوردوسری یہ کہ تحریکِ انصاف بھی ”ٹھنڈی ٹھار” ہوکے بیٹھ رہی۔ حلقہ 122 کے ضمنی انتخاب میںتو چودھری سرورنے آسمان سرپہ اُٹھارکھا تھا کہ تحریکِ انصاف کے ووٹرزکو راتوںرات دوسرے حلقوںمیں شفٹ کردیا گیالیکن ثبوت وہ کوئی ایک بھی پیش نہ کرسکے (اُنہوںنے اعلان کررکھا ہے کہ اگروہ ثبوت پیش نہ کرسکے توسیاست چھوڑ دیںگے۔ پرویز رشیدصاحب اسی کوبنیاد بناکر اُن سے ایفائے عہدکا تقاضہ کررہے ہیں)۔ اب دیکھیں بلدیاتی انتخابات میں چودھری صاحب شکست کاکیا بہانہ تراشتے ہیں۔
تحریر: پروفیسر رفعت مظہر